Asrar-ut-Tanzil - Hud : 84
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ
وَ : اور اِلٰي مَدْيَنَ : مدین کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا وَ : اور لَا تَنْقُصُوا : نہ کمی کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكُمْ : تمہیں دیکھتا ہوں بِخَيْرٍ : آسودہ حال وَّاِنِّىْٓ : اور بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ مُّحِيْطٍ : ایک گھیر لینے والا دن
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (بھیجا) انہوں نے فرمایا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو بیشک میں تم کو آسودہ حال دیکھتا ہوں اور یقینا مجھے تم پر ایسے دن کے عذاب کا ڈر ہے جو (تم کو) گھیر کر رہے گا
آیات 84 تا 95 اسرار و معارف شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا حال بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ مدین جو ملک شام کا مشہور شہر تھا اس کے رہنے والوں کی طرف ان ہی میں سے شعیب (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ یہ لوگ شجرپرستی میں مبتلا تھے اور مختلف درختوں کی پوجا کرتے تھے جیسے ہندومت میں آج بھی یہ بات پائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ان کا لین دین بھی ہندؤوں جیسا تھا ڈنڈی مارنے سے نہ چوکتے ناپ تول میں کمی کردیتے ۔ سونے کے سکوں میں سے تھوڑابہت سونا کاٹ لیتے اور سکہ پوری قیمت پر چلتا کردیتے۔ ناپ تول میں کمی چنانچہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے توحید کی دعوت دی اور فرمایا اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ۔ لہٰذا صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرو اور ناپ تول میں کمی کرنا چھوڑ دو کہ دیکھوتم کس قدرخوشحال ہو اللہ کی دی ہوئی نعمتیں مال و دولت تمہارے پاس بہت ہیں اور یہ ناپ تول میں کمی یا دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ایسا جرم ہے جس سے نعمتوں کو زوال آجاتا ہے اور کفر وشرک تباہی لاتا ہے تو خطرہ اس بات کا ہے کہ تم دنیا وآخرت کے تباہ کن عذاب میں پھنس کر تباہ ہوجاؤگے ۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ناپ تول میں کمی کرنے والوں پر قحط اور گرانی کا عذاب مسلط کردیا جاتا ہے اور علماء کے نزدیک کسی دوسرے کا حق روکنا یا جو حق اپنے ذمہ ہوادانہ کرنا بھی ایسا ہی جرم ہے جیسے تنخواہ پاکرڈیوٹی پوری نہ کرنا یا دفتر کے لوگ ڈاکٹر اور کاروباری ادارے اپنے فرائض میں کوتاہی کرنے لگیں تو یہ سب ناپ تول میں کمی ہے اور اس پر گرانی کا عذاب نازل ہوتا ہے ۔ لہٰذا گرانی کے عفریت سے نجات کا راستہ دیانتداری سے فرائض منصبی کی ادائیگی اور ناپ تول میں کمی نہ کرنا ہے ۔ جبکہ لوگ اس میں تو مبتلا ہیں اور گرانی سے نجات کے دوسرے طریقے تلاش کرتے پھر رہے ہیں ۔ فرمایا کہ ناپ تول پورا کرو اور کسی کا حق نہ مارو کہ یہ اتنا بڑاجرم ہے جس سے پوری دنیا میں فساد پھیلتا ہے جیسے بدن انسانی میں دوران خون دل سے جاری ہوکرہرذرئہ بدن تک اس کے حق کے مطابق پہنچتا ہے لیکن اگر کسی جگہ رک جائے یا روک دیا جائے تو اس سے آگے کا حصہ تباہ ہونے لگتا ہے اور وہ چونکہ بدن ہی کا حصہ ہوتا ہے لہٰذاسارے بدن کو تکلیف ہوتی ہے اور جب خود دل ہی کی کوئی نس بندہوجاتی ہے تو فورا موت واقع ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح اگر کسی بھی انسان سے اس کا حق روک دیا جائے ، خواہ ناپ تول اور لین دین میں کمی کرکے یافرائض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کے تو پوری قوم مبتلائے عذاب ہوجاتی ہے جس کا مشاہدہ ہم لوگ کر رہے ہیں مگر وائے ہے ایسے دانشوروں پر جو پھر بھی کبھی مغربی جمہوریت میں پناہ کے طالب ہیں اور کبھی سوشلزم میں جبکہ ایک حسین دھوکا ہے تو دوسرانظام جبرواستبداد کی آخری اور بھیانک شکل اے کاش ! انھیں اسلام کے یہ سنہرے اور آفاتی اصول نظرآتے۔ فرمایا کہ اس کفروشرک اور بددیانتی کے باوجود تم خود کو ایماندار جانتے ہو اور حق پر سمجھتے ہو۔ اور ایمان کا تقاضاتو یہ ہے کہ اپنے حق پہ اکتفا کی جائے اور اللہ کی طرف سے جو نصیب ہو حلال اور جائز ذرائع سے اس پہ قناعت کی جائے کہ وہی بہترین نعمت ہے جب اس میں دوسروں کے حقوق ملنا شروع ہوتے ہیں تو وہ عذاب بن جاتی ہے ۔ اور اگر تم بازنہ آئے تو میں بھی تمہاری کوی مددنہ کرسکوں گا۔ نہ تم سے زبردستی منواسکتا ہوں اور نہ پھر تمہیں بچاسکوں گا ۔ تو انھوں نے آپ کی پرہیزگاری اور نماز کا طعنہ دیا جیسے آج بھی بعض بدبخت یہی طعنہ دیتے ہیں کہ کیا آپ کی عبادت آپ کو یہی سکھاتی ہے کہ ہم باپ داداکامذہب بھی چھوڑدیں اور اپنے مال میں آپ سے پوجھ کر تصرف کریں اس پر اپنی مرضی لاگو نہیں کرسکتے ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) چونکہ بہت زیادہ عبادت کیا کرتے تھے تو انہیں اسی کا طعنہ دیا نیز ان کا خیال تھا کہ عبادت الگ چیز ہے اور معاملات الگ جیسے آج بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نمازیں پڑھیں آپ کو سیاسیات اور کاروبار حیات سے کیا واسطہ مگر یاد رہے ایمان کے بعد سب سے اہم بات معاملات کی ہے پھر ذاتی عبادت کی ۔ ذاتی کردار مگر وہ کہنے لگے کہ آپ کس قدرشریف بردبار اور نیکوکار انسان ہیں بھلا آپ کو دوسروں کی خرابیوں میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے ۔ چونکہ انبیاء (علیہم السلام) کا بچپن جوانی ہر دور خوبصورت اور معاشرے سے الگ اور نتھرا ہوا ہوتا ہے لہٰذاکفار بھی ان کی ذاتی شرافت کے معترف ہوتے ہیں لہٰذا مصلحین اور مشائخ کو چاہیئے کہ ذاتی کردار کو مثالی بنائیں کہ تبلیغ میں اس کا بہت اثر ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ لوگو ! میں جس کام سے تمہیں روک رہا ہوں خودبھی تو اس کے قریب نہیں جاتا ایسی تو کوئی بات نہیں کہ تمہیں روک کر خود اس طریقے سے دولت جمع کرنا چاہتا ہوں اور یہ بھی تمہارے سامنے ہے کہ اللہ نے مجھے بہترین رزق دیا ہے مال ومنال بھی عقل و دانش بھی علم بھی اور نور نبوت بھی ۔ اور میرے پاس معجزات کی روشن دلیل بھی ہے اور میری تمنا صرف تم لوگوں کی اصلاح ہے کہ تمہیں دنیا میں بھی عزت ووقار نصیب ہو اور آخرت میں بھی راحت و سکون ملے ۔ تو تمہارے بھلے کا دوعالم میں طلب گار ہوں ہاں ! جو میری استطاعت میں ہے وہ تو میں ضرور کروں گا تم منت سے بھی اور زبردستی بھی مجھے روک نہیں سکتے ہاں ! میراذاتی کچھ بھی تو نہیں بس اللہ رب العزت ہی کی عطاکروہ طاقت وقوت ہے جو میں اس کی اطاعت پہ صرف کرتا رہوں گا۔ اسی کی ذات پر مجھے بھروسہ بھی ہے اور اسی کی طرف میرے قلب کا رجوع بھی ۔ انابت دل کا وہ خفیہ ترین فیصلہ ہے جو وہ کسی کے ساتھ رہنے کا کرتا ہے تو پوری عملی زندگی اس حال میں ڈھل جاتی ہے ۔ انبیاء وصالحین کی دشمنی عذاب الٰہی کا سبب بنتی ہے فرمایا لوگو ! محض میری مخالفت کرنے کے لئے الٹے کاموں پہ نہ جم جانا۔ ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی ویسے ہی عذاب نازل ہوں جیسے نوح (علیہ السلام) یا صالح (علیہ السلام) کی قوم پر نازل ہوئے اور لوط وعلیہ السلام کی قوم تو تم سے زیادہ پہلے نہیں گزری ۔ ان کی حالت ہی دیکھ کر عبرت حاصل کرو اور برائی سے باز آجاؤ ۔ نیز صلحاء کی مخالفت میں برائی پہ جمے رہنامحض انھیں ناکام کرنے کے لئے یاتنگ کرنے کے لئے تو یہ عذاب الٰہی کو دعوت دینے والی بات ہے ۔ اور اللہ سے بخشش طلب کرو خلوص دل سے استغفار کرو ۔ نیز آئندہ یہ جرم نہ کرنے کا پکاپکاعہد کرو تو اللہ بہت بڑارحم کرنے والا ہے اور اپنے کی توفیق بھی عطاکردے گا۔ ذرامانگ کر تو دیکھو ، اس کے در پر آکرتو دیکھو لیکن بات وہی ہے جو بارہا لکھی جاچکی کہ گناہ دل سے سمجھ چھین لیتے ہیں اور دل گونگا بہرا اور اندھا کردیتے ہیں بات پلے ہی نہیں پڑتی ۔ چناچہ وہ بھی کہنے لگے آپ کی بات ہمارے پلے نہیں پڑتی اور ہمیں تو آپ کے پاس کوئی قوت و طاقت بھی نظر نہیں آتی محض ایک کمزور سے انسان دکھائی پڑتے ہو۔ بس ذرا تمہارے قبیلے کا لحاظ ہے کہ جب ایک شہر میں رہنا ہے تو مل جل کر رہنا مناسب ہے اور ناراضگی پیدانہ کریں اگر یہ بات نہ ہوتی تو تمہیں سرعام سنگسار کردیتے کہ ہمارے نزدیک تمہاری کوئی حیثیت نہیں ۔ انھوں نے فرمایا بدنصیبو ! تمہیں اللہ کی عظمت کا خیال نہیں آتا میں جس کافر ستادہ اور نبی ہوں اور میرے قبیلے کا لحاظ وپ اس ہے اور یادرکھو کہ میرا پروردگار تمہارے کرتوتوں سے پوری طرح باخبر بھی ہے اور ان سب پر قدرت کاملہ بھی رکھتا ہے جب چاہے تھیں اپنی گرفت میں لے سکتا ہے اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے تو جو کر رہے ہو کرتے رہو اور انتظار کرو کہ عنقریب بات واضح ہوجائے گی کہ کون عذاب الٰہی کی گرفت میں آتا ہے اور ذلیل ہوکرتباہ ہوتا ہے اور یہی بات ثابت کردے گی کہ کون جھوٹا ہے تم بھی اس وقت کا انتظارکرو اور میں بھی اسی کا انتظار کرتا ہوں۔ چنانچہ عذاب الٰہی ان پر نازل ہوا اور وہی کچھ ہوا کہ ظالموں پر عذاب نازل ہورہا تھا تو اللہ کے نبی اور اس کے ماننے والوں پہ رحمت نچھاور ہورہی تھی چناچہ شعیب (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کو اللہ نے اپنی خاص رحمت سے بچالیا اور باقی سب پر ایک سخت چنگھاڑ پڑی کہ کوئی روح بچ سکانہ کسی کا ٹھکانہ ۔ ہر شے تہ وبالا ہوگئی اور یوں تباہ ہوئے کہ آبادی ویرانہ نظر آتی تھی جیسے یہاں کبھی کوئی رہاہی نہ ہو تو لوگو ! سن لو کہ مدین پر بھی ایسے پھٹکار پڑی جیسے ثمود پر پڑچکی تھی۔
Top