Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Hajj : 39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
اُذِنَ
: اذن دیا گیا
لِلَّذِيْنَ
: ان لوگوں کو
يُقٰتَلُوْنَ
: جن سے لڑتے ہیں
بِاَنَّهُمْ
: کیونکہ وہ
ظُلِمُوْا
: ان پر ظلم کیا گیا
وَاِنَّ
: اور بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
عَلٰي نَصْرِهِمْ
: ان کی مدد پر
لَقَدِيْرُ
: ضرور قدرت رکھتا ہے
(اب) ان (مسلمانوں) کو (لڑنے کی) اجازت دے دی گئی جن سے (کافروں کی طرف سے) لڑائی کی جاتی ہے اس لئے کہ ان پر (بہت) ظلم کیا گیا اور یقینا اللہ ان کی مدد پہ قادر ہیں
(رکوع نمبر 6) اسرارومعارف چناچہ ظہور اسلام کے مکی دور کے تیرہ برس مسلمانوں کو برداشت کرنے اور دین سیکھنے سکھانے پر محنت کرنے کا حکم تھا مگر جب کفار کا ظلم حد سے بڑھا اور مسلمان گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے حتی کہ نبی اکرم ﷺ کو ہجرت کرنا پڑی اور آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو جہاد کی اجازت اور جہاد کرنے کا حکم ملا اور جہاد کی فرضیت کے ساتھ اس کی وجہ بھی ارشاد فرمائی گئی کہ مسلمانوں کو جو کافروں کے جوروستم کی زد پر ہیں اور جن پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اب مقابلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے ۔ (جہاد کی فرضیت اور اس کی وجہ) اللہ کریم نے ظلم کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا اور ظلم کی تعریف وہ ظلم کہلائے گی ، چناچہ یہ وجہ تو ہر وقت موجود ہے لہذا مسلمانوں پر ہمیشہ جہاد بھی فرض ہے ، اسی لیے حد یہ مقرر کی گئی تھی کہ (آیت) ” حتی لا تکون فتنۃ “۔ کہ کوئی فساد باقی نہ رہے ، جہاد سے یہ مراد نہیں کہ کسی کو زبردستی مسلمان کیا جائے یہ ضرور مراد ہے کہ کوئی اسلامی احکام میں مداخلت کی جرات نہ کرے اور اللہ جل جلالہ کی زمین پر اسی کی مخلوق پر ظلم کرنے سے روکا جائے نیز اس کے ساتھ اللہ جل جلالہ کی مدد کا وعدہ موجود ہے کہ مسلمان جب بھی اور جہاں بھی اللہ جل جلالہ کی رضا کے لیے ظلم کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوں گے اللہ جل جلالہ ان کی مدد کرنے پر پوری طرح قادر ہے ، ظاہری اسباب خواہ جیسے بھی ہوں فتح مسلمانوں کو ہی نصیب ہوگی اور اللہ کا یہ وعدہ بھی جس طرح حکم ہمیشہ کے لیے ہے ہمیشہ ہی کے لیے ہے اور بدرواحد سے لے کر آج کے دور کے افغان جہاد تک اس کی برکات روز روشن کی طرح واضح ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ خود کفار کو بھی اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ مٹھی بھر مسلمان صحرائے عرب سے اٹھ کر روئے زمین پر چھا گئے تو یہود نے شیعہ تحریک کی بنیاد رکھی جس بہت بڑا رکن ترک جہاد ہے کہ امام غائب آئے گا تو اس کی قیادت میں جہاد جائز ہو سکے گا اور برصغیر میں نصرانیوں نے مرزائیت کی بنیاد رکھی یہ بھی صرف جہاد کو روکنے کے لیے ایک بڑے ظلم اور گمراہی کی بنیاد رکھی گئی اور اب تو نئی مصیبت یہ ہے کہ ہمارا ایک بہت بڑا دیندار طبقہ اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ سارا کام محض دعاؤں سے ہوگا بس دیگیں پکائی جائیں نتیجہ یہ کہ جب لڑنے کا ارادہ ہی نہیں تو جدید تکنیک سیکھنے کی کیا ضرورت چناچہ مسلمان بتدریج نئی ایجادات تک سے دور ہوتا جا رہا ہے اور یہ ہم غیر شعوری طور پر بغیر اجرت کے کافر کی مدد کر رہے ہیں اللہ ہمیں معاف فرمائے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق بخشے آمین ! چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ اب مسلمانوں کو مقابلے کی اجازت بھی ہے اور اللہ کریم ان کی پوری مدد بھی فرمائے گا یعنی یہ ایک طرح سے فتح کی بشارت بھی ہے اب اس کے بعد ان مظالم کا تذکرہ بھی ہے جو مسلمانوں پہ ڈھائے جا رہے تھے کہ نہ صرف انہیں قتل کیا گیا ، مارا گیا بلکہ ان پر ظلم کرکے انہیں ان کے گھروں تک سے نکال دیا گیا تو ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اللہ جل جلالہ کو اپنا رب مانتے اور اسی کی عبادت کرتے تھے اور اس کے مقابلے میں کسی دوسرے کی اطاعت نہیں کرتے ۔ اور یہ قانون فطرت ہے کہ اللہ کریم ہر خرابی کے مقابلے کے لیے بھی حالات پیدا فرماتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا اور زیادتی کرنے والوں سے دفاع کی اجازت نہ دی جاتی تو نہ صرف آج بلکہ کبھی بھی زمین پر دین کا نظام قائم نہ ہو سکتا نہ عیسائیوں کے خلوت کدے اور عبادت خانے قائم رہتے اور نہ یہود کی عبادت گاہیں بن سکتیں جو اپنے اپنے وقت میں سب اسلام ہی تھے اور حق تھے یہ الگ بات ہے کہ اب خود ان لوگوں نے ان ادیان میں تحریف کرکے انہیں کفر وشرک میں تبدیل کردیا اور نہ مسلمانوں کی مساجد کافروں کی دست برد سے محفوظ رہتیں ، جن میں کثرت سے اللہ جل جلالہ کا نام کا ذکر ہوتا ہے ۔ (مساجد اور ذکر اسم ذات) قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر اسم ذات کے ذکر کا حکم دیا ہے جیسے اس آیہ کریمہ میں کہ مساجد میں تو پنجگانہ فرائض کی ادائیگی کی جاتی ہے پھر ان کی اہمیت کا سبب اسم ذات کا ذکر کیوں قرار دیا گیا کہ ذکر اسم ذٓت ہی واحد راستہ ہے جو قلب کو وہ تعلق نصیب کرتا ہے کہا سے عبادات میں حضور اور خشوع نصیب ہوتا ہے ہر عمل جو شریعت کے مطابق ہو ذکر اللہ ہے تلاوت ، نماز ، تسبیحات ذکر لسانی ہے مگر اس سب کے باوجود اسم ذات کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے اور کثرت کا حکم اس کے ساتھ موجود ہے جو تب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب قلب ذاکر ہوجائے گویا ہر عبادت اور عبادت گاہ کی روح ذکر قلبی ہے ۔ نیز جہاد تو محض اللہ کے لیے اور اس کے دین کی مدد کے لیے ہے تو جو بھی خلوص سے یہ کام کرے گا اللہ جل جلالہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا یعنی جہاد میں مجاہد کی فتح یقینی ہے ، اگر نیت خالص جہاد ہی کی ہو یہ نہ ہو کہ صورت جہاد کی ہو اور مقصد اپنی کسی غرض کی تکمیل ہو اور اللہ جل جلالہ بہت بڑی طاقت والا اور ہر شے پہ غالب ہے یعنی کوئی بھی طاقت اللہ جل جلالہ کی مدد کو شکست نہیں دے سکتی ۔ اور خالص اللہ جل جلالہ کی راہ میں لڑنے والے لوگ ایسے ہیں کہ جب انہیں اقتدار اور غلبہ نصیب ہوتا ہے تو زمین پر بندوں سے بندوں کی غلامی چھڑا کر اللہ جل جلالہ کی عبادت کا نظام قائم کرتے ہیں اور مال پر زکوۃ یعنی دوسروں کے حقوق کا اہتمام کرتے ہیں اور نیکی کا حکم جاری کرتے ہیں اور برائی سے روک دیتے ہیں اور تمام امور کا انجام تو اللہ جل جلالہ ہی کے دست قدرت میں ہے لہذا مسلمانوں کو بظاہر کمزور دیکھ کر یہ نہ سمجھا جائے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہر کام جب اللہ جل جلالہ کرتا ہے تو جیسا چاہتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے ۔ ّ جمہور مفسرین کرام کے نزدیک اس آیہ مبارکہ کی عملی تفسیر خلافت راشدہ کا مبارک دور ہے کہ ان کا جہاد خالص اللہ کے لیے تھا انھیں فتح اور غلبہ واقتدار نصیب ہوا اور انہوں نے روئے زمین بلکہ معلوم تاریخ انسانی کی بہت بڑی سلطنت پر اللہ کا نظام اور نظام اسلام رائج فرمایا ۔ (نفاذ اسلام اور تاریخ عالم) آج کے دور کا ایک سوال یہ بھی ہے کہ تاریخی اعتبار سے عملی طور پر صرف خلافت راشدہ کے عہد میں اسلام ناقدرہا بعد کا سارا زمانہ اس سے خالی ہے لہذا ایسا کرنا بھلا آج کیسے ممکن ہے ؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ اسلام اللہ جل جلالہ کا دیا ہوا نظام حیات کامل ومکمل سیاسی ، معاشی ، اخلاقی اور دینی ہر اعتبار سے ساری انسانیت کے لیے سارے زمانوں اور سب ممالک کے لیے ہے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ آج کے عہد کی ضروریات کا ساتھ نہیں دے سکتا تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اسلام کبھی بھی انسانیت کو ایک خوبصورت فلاحی ، پرامن اور انصاف پر مبنی معاشرہ دینے کا اہل نہ تھا ، ظاہر ہے ایسا کہنا کسی بھی طرح ممکن نہیں کہ ساری دنیا جل رہی تھی جب ظہور اسلام ہوا اور روئے زمین پر سے ظلم مٹا کر عد و انصاف قائم کرے اسلام نے دکھا دیا تو یہ کہنا کہ تب تو ٹھیک ہے اب اسلام ایسا نہیں کرسکتا اس لیے درست نہ ہوگا کہ اسلام کا دعوی ہے کہ یہ خدائی قانون ہے اور ہمیشہ کے لیے ایک سا مفید ہے تو اس کا انکار سارے اسلام کا انکار ہوگا اس پر یہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کہتی ہے خلافت راشدہ کے بعد عملا اسلام کہیں نافذ نہیں رہا مسلمانوں کی حکومتیں تو تھیں مگر اسلامی حکومتیں نہ تھیں تو یہ درست نہیں اور تاریخ یہود کی سازش کا شکار ہے ورنہ پہلے کی بات چھوڑیں جب تاتاریوں کا طوفان مسلمان کے خون سے ہولی کھیل رہا تھا مصر میں بیبرس کی حکومت اسلامی تھی جس نے مشہور تاتاری جرنیل کو شکست فاش دی اور اس کے بدن کے ٹکڑے شہر کے دروازوں پر لٹکا کر باطل کی شکست کا نظارہ پیش کیا ، ہندوستان پر سلطانالتتمش کی حکومت اسلامی حکومت تھی ، حتی کہ ہلاکو خان کو سندھ کا دریا عبور کرنے کی جرات نہ ہوسکی اور نگ عالمگیر تک آئیے تو فتاوی عالمگیری آج بھی ریاستی قانون کی دستاویز کے طور پر موجود ہے ، ہاں یہ ضرور ہے کہ درمیان میں ہر قسم کے لوگ بھی آئے ایسے ایسے بدنصیب بھی جنہوں نے اسلامی قانون کی پرواہ نہ کرکے اپنی مرضی سے بھی حکومت کی مگر یہ کہنا درست نہیں کہ اسلامی حکومت نہیں رہی ۔ اگر کفار آپ ﷺ کی تکذیب کرکے اپنی دنیا وآخرت تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو آپ ﷺ مغموم نہ ہوں کہ اللہ کریم نے بندے کو راہ چننے کا اختیار دیا ہے اور پہلی قوموں نے جیسے نوح (علیہ السلام) کی قوم اور عاد وثمود یا ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم یا لوط (علیہ السلام) کی قوم ان سب نے بھی تو اپنے انبیاء کرام کی دعوت کا انکار ہی کیا تھا مدین کے رہنے والوں نے یا موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا قبطیوں نے انکار کیا اور ان اقوام کو موقع بھی دیا گیا کہ سنبھل جائیں مگر جب کفر ہی پہ جمے رہے تو اللہ جل جلالہ کی گرفت میں آگئے اور انھیں میری عظمت کے انکار کا مزہ چکھنا پڑا ، کتنے ہی شہر ویران ہوئے جو ظالم اقوام کا مسکن تھے جو بڑے متکبر اور طاقتور تھے مگر اب ان کا حال کیا ہے ایسے برباد ہوئے کہ چھتیں پہلے گر گئیں اور اب دیواریں چھتوں پر گر پڑی ہیں کتنے کنویں تھے جو ان آبادیوں کے مکینوں نے بنائے جو اب ویران پڑے ہیں اور کتنے شاندار محلات قلعے جن پر فن تعمیر کا پورا پورا زور دکھایا گیا اور گلکاری کی گئی ، اب اس پر کا ہی جم رہی ہے کیا آج کے مفکر روئے زمین پر ان عبرت کے نشانوں کو نہیں دیکھ سکتے ۔ ّ (قلب ، اس کی آنکھ کان اور کیفیات) لیکن کاش ان کے پاس دل ہوتے جو سمجھنے کی اہلیت رکھنے والے ہوتے ، گویا ذات باری ہو یا صفات باری ان کو جاننے اور معرفت الہی کے لیے قلب کی ضرورت ہے یہ جو گوشت کا لوتھڑا ہے اس کے اندر ایک لطیفہ ربانی ہے جو حقیقی قلب ہے اور جس میں عقل و شعور ہے ، جو سنتا ہے دیکھتا ہے ظاہر ہے تب ہی سمجھ سکتا ہے کفر اور نافرمانی دل کی یہ استعداد ضائع کردیتے ہیں تو انسان عظمت باری کو سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے ، اسی لیے یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ کاش ان کے دل سمجھنے والے ہوتے کہ دماغ ، بدن اور اس کی ضروریات کو سمجھنے کے لیے ہے اور روح اور اس کی ضروریات دل کا کام ہے تو کفار کے دل سمجھ سے عاری اور کان سننے سے محروم کہ ظاہری کان عقل اور دماغ کے لیے سنتے ہیں دل کی لیے کچھ سنائی نہیں دیتے ، ان کی آنکھیں بھی تو نہیں یہ ظاہری آنکھیں تو بیشک ہیں مگر ان کی دل کی آنکھیں اندھی ہیں وہ دل جو سینوں میں دھڑکتا ہے اسی کی بات ہو رہی ہے تو گویا دل کی آنکھ اور اس کی بینائی دل کے کان اور ان کی شنوائی ، دل کا شعور اور درد آشنائی یہی دین کی بنیاد اور اللہ جل جلالہ کی عظمت کو جاننے کے ذرائع ہیں اور ان اوصاف کا حصول اور ایسے افراد کی تلاش جو یہ کام کرسکیں یہ سب ضروریات دین میں سے ہیں اور اسی کا نام تصوف و سلوک ہے ۔ دل کے اندھے پن کی مصیبت دیکھو یہ آپ سے کہتے ہیں کہ اگر عذاب ہی آنا ہے تو پھر جلدی لاؤ انہیں اللہ کے عذاب کی شدت کا بھی اندازہ نہیں ان سے کہ دیجیے کہ مت گھبراؤ اللہ اپنے وعدے کیخلاف ہرگز نہ کرے گا انھیں اگرچہ عرصہ لمبا لگتا ہے مگر عنداللہ یعنی آسمانی نظام میں تو دنیا پر ہزار سال کے برابر ایکدن ہے تو اس لحاظ سے اگر کوئی سو سال بھی جیا تو دن کا دسوں حصہ ہی جیا جیسا دنیا کے نظام کا سیکرٹریٹ تو بالائے آسمان ہے جہاں دن اتنے بڑے شمار ہوتے ہیں اسی لیے فرماتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے تو عمر کا کوئی فرق نہ ہوگا کہ اب تک دنیا پہ اگر دو ہزار برس بیت گئے تو جہاں وہ ہیں وہاں تو دوروز ہی گذرے ہیں بعض حضرات کے نزدیک ہزار سال کا ایک دن قیامت کا دن ہے ۔ واللہ اعلم۔ اور انہوں یہ دیکھنا چاہیے کہ کتنی آبادیاں جرم کفر میں اجڑ گئیں کتنی اقوام تباہ وبرباد ہوگئیں کتنے سرکش لوگ تھے جو ظلم کرتے تھے پر اللہ جل جلالہ کی گرفت میں آکر چور چور ہوگئے اس لیے کہ انجام کار ہر ایک کو اللہ جل جلالہ ہی کی بارگاہ کی طرف پلٹنا ہے ۔
Top