Asrar-ut-Tanzil - An-Naml : 51
الٓمَّٓۙ
الٓٓمَّ : الف لام میم
ا لم
سورة آل عمران آیات 1- 9 اسرارومعارف الم اللہ لا الہ الا ھو……………لا الہ الا ھوالعزیز الحکیم جب بات کفار پر نصرت اور غلبہ کی طلب پر پہنچی جو کہ سورة بقرۃ کے آخر میں بطور دعا ہے تو اس سورة میں کفار کے ساتھ معاملات اور تعلقات کو بیان فرمادیا۔ گویا وہی بات آگے چل رہی ہے۔ سب سے پہلے مومن اور کافر میں فرق ارشاد ہوا کہ تو حید باری اور ذات وصفات الٰہیہ میں یہ بات واضح ہے ، کہ ماننے والے مسلم اور نہ ماننے والے کافر۔ گویا دنیا میں انسان کی تقسیم دو طرح پرہ ہے جسے دو قومی نظریہ بھی کہا جاتا ہے ، ایک مومن دوسرے کافر۔ مومنین باہم ایک شے ہیں اور کفر کے اندر پھر قسمیں ہیں مگر بنیادی طور پر سب کافر ایک ہی ملت ہیں۔ یہاں توحید باری بطور دعویٰ کے ارشاد ہوئی کہ اللہ کے سوا کوئی بھی حق نہیں رکھتا کہ اس کی عبادت کی جائے الٓم حروف مقطعات میں سے ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیا راز ہیں یا کسی کو اس قدر قوی نسبت باطنی حضور اکرم ﷺ سے ہو کہ علم لدنی سے حصہ پائے اور بات سمجھ سکے۔ مگر یہ بھی صرف اس کے اپنے لئے ہوگا۔ دوسرے یہی ایمان رکھیں گے کہ اللہ ورسولہ ، اعلم۔ اس کے بعد الوہیت باری و توحید باری کا دعویٰ ہے جس کی دلیل عقلی ارشاد فرمائی کہ وہ ہمیشہ زندہ ہے اور سب کائنات کو زندہ رکھنے والا۔ کوئی بھی شے اس کی قدرت کے علاوہ اپنا وجود تک قائم نہیں رکھ سکتی اور عبادت نام انتہائی تذلل کا ہے ، غایت عاجزی کا ہے اور یہ اسی کے لئے سزاوار ہے۔ جو انتہائی عظمت کا مالک اور ہر اعتبار سے کامل ہو۔ احتیاج سے پاک ہو۔ جو ہستی خود اپنا وجود قائم نہ رکھ سکے اور اس کی بقاء کے لئے دوسرے کی محتاج ہو۔ خواہ بت ہو یا فرشتہ ، بہت بڑا پہاڑ ہو یا دریا ، ولی ہو یا پیغمبر ، ہرگز عبادت کے لائق نہیں ہسکتا۔ عبادت صرف اس ذات کی ہوگی جو ہمیشہ سے ہے ، ہمیشہ کے لئے ہے اور وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ اس کے بعد دلیل نقلی ارشاد فرمائی کہ نقلاً بھی یہ بات صرف قرآن کریم میں نہیں یا صرف آپ ﷺ نے ہی ارشاد نہیں فرمائی بلکہ اس سے پہلے نازل ہونے والی تمام آسمانی کتابوں میں ہے اور تمام انبیاء ورسل (علیہ السلام) نے اس کی طرف دعوت دی ہے۔ اب اس بات کو اگر اس طرح بھی دیکھا جائے کہ دنیا میں آنے والے سب سے پہلے انسان اور اللہ کے نبی نے جو دعوت دی وہ یہی تھی لا الہ الا اللہ۔ پھر صدیوں بعد نوح (علیہ السلام) نے اسی جملے کو دہرایا اور مدت مدیدہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہوں یا سیدنا اسماعیل علیہ السلام۔ یہی دعوت لے کر اٹھے تھے۔ اسی دعوت کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) نے بلایا اور یہی دعوت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی اور آخر میں حضرت محمد ﷺ بھی اسی بات کی طرف دعوت دے رہے ہیں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں بلکہ کم وبیش سوا لاکھ آدمیوں کا ایک طویل مدت میں مختلف زبانوں اور مختلف زمانوں میں کھڑے ہو کر اسی حقیقت کو بیان کرنا خود اس کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے خصوصاً اس وقت اس میں اور بھی بہت قوت آجاتی ہے جب ان حضرات کے کردار کو دیکھا جائے کہ سب کے سب انسانی اخلاق کے صرف نمونہ ہی نہ تھے بلکہ انسانوں کو اخلاق سکھانے والے تھے۔ سب صالح ، صادق ، پاکباز اور امانت دار تھے۔ ان تمام حضرات کی زندگیاں ہر برائی سے ہر طرح پاک تھیں اور ان میں سے قدر بعدزمانی تھا کہ کسی دنیوی سبب سے ایک کی بات دوسرے تک پہنچ سکنا ممکن نہ تھا۔ لامحالہ یہ وحی الٰہی تھی اور یہ سب اللہ کے رسول تھے اور پھر بعثت محمد علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام نے اس حقیقت کو چار دانگ عالم میں منور کردیا۔ اب جو شخص بھی اس قدر دلائل عقلیہ اور تقلیہ کے ہوتے ہوئے اللہ کی توحید یا کسی وصف کا انکار کرے گا یا اس کے سوا کسی کی عبادت کرے۔ وہی کافر ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ ان دلائل کو جھٹلاکر کافر ایک بہت شدید عذاب کو دعوت دے رہا ہے کیونکہ اللہ ہر شے پر غالب ہے اور وہ بدلہ لینے والا ہے۔ نیز اس کے اوصاف کمال میں یہ بات بھی ہے کہ ارض وسما میں کوئی چیز اس سے چھپ نہیں سکتی اور نہ اس کی گرفت سے باہر رہ سکتی ہے ۔ وہ تو ایسا قادر ہے جو شکم مادر میں جیسی چاہتا ہے ویسی صورت بنادیتا ہے بچہ بنائے یا بچی ، گورا بنائے یا کالا ، خوش شکل یا قبیح صورت ، جس کے پیٹ میں بن رہا ہے وہ آگاہ نہیں۔ لیکن اللہ اس سے پوری طرح آگاہ ہے خود بنارہا ہے اس کی قدرت سے بن رہا ہے۔ سو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی اس سے چھپ سکے۔ یا اس کے دائرہ اختیار سے باہر چلا جائے۔ غرضیکہ کافر کسی طرح نہیں بچ سکتا اور ایسی کامل ہستی جو تمہاری خالق بھی ہے ، رزاق بھی ہے اور تمہیں اسی کے سہارے یہاں وہاں رہنا بھی ہے۔ وہی اکیلا عبادات کا استحقاق رکھتا ہے۔ پھر سن لو ! اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ہر شے پہ غالب ہے اور حکیم ودانا بھی ہے۔ ھوالذی انزل علیک الکتاب…………اولوالالباب۔ وہی ذات ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب یعنی قرآن اتارا جس کی کچھ آیات محکم ہیں ، مضبوط ہیں ، یعنی اشتباہ مراد سے محفوظ ہیں کہ زبان جاننے والے شخص کے لئے نہ تو ظاہر الفاظ شبہ آفرین ہوتے ہیں اور نہ مفہوم کلام جیسے قل تعالوا اتل ماحرم ربکم علیکم یا اس طرح کی اور آیات۔ یعنی غور کرنے سے مفہوم اور مقتضا سمجھ میں آجاتا ہے یہاں صاحب تفسیر مظہری نے بطور مثال یہ آیت لکھی ہے کہ ارشاد ہے۔ پائوں دھونے کی حد : وارجلکم الی الکعبین۔ کہ ٹخنوں تک اپنے پائوں دھوئو کہ دھونے کی آخری حد مذکور ہے اس لئے اس کا عطف وجوھکم اور ایدیکم پر ہوگا ورنہ اگر بروسکم پر پڑھا گیا تو گویا مسح کرو ٹخنوں تک۔ تو یہ از خود غلط ہوجائے گا۔ علماء شیعہ نے کہا کہ کعب سے مراد پائوں کا ابھار ہے۔ سو دونوں پائوں کے ابھار تک مسح کیا جائے گا۔ لیکن کعب کے یہ معنی خلاف ظاہر ہیں۔ بالا جماع کعب کا معنی ٹخنہ ہے اور ایک پائوں میں دو ٹخنے ہوتے ہیں۔ سو کبعین دھونے کی حد ہوگی نہ مسح کی۔ غرض محکم آیات وہ ہیں جن کا معنی معروف اور دلیل واضح ہو ، اور یہی آیات ساری تعلیمات کی اصل اصول ہوں گی اور کھچ دوسری وہ ہیں جو متشابہات ہیں کہ جب تک رسول اللہ ﷺ کی طرف سے محکم عبارت میں ان کا مفہوم بیان نہ ہو ، کوئی زبان دان بھی غوروخوض سے ان کی مراد کو نہیں پاسکتا۔ جن آیات کا مفہوم حضور ﷺ کی طرف سے بیان ہوجائے ان کو اصطلاح میں مجمل کہا گیا ہے جیسے صلوٰۃ ، زکوٰۃ ، حج یا ربوٰ وغیرہ۔ اور اگر حضور ﷺ کی طرف سے تعلیم نہ ہو تو متشابہ کہا جاتا ہے اور یہ ان ہی امور میں ہوتا ہے جن کا تعلق عمل سے نہ ہو ، جیسے حروف مقطعات یا الرحمن علی العرش استویٰ ۔ تو ان پر ایمان لانا ضروری ہے کہ یہ حق ہے ۔ کیفیات میں پڑنے کی ضرورت ہرگز نہیں۔ اور ایسے متشابہات کا علم اہل عرفان کو الہام یا تعلیم الٰہی سے ہوجاتا ہے ، جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے تمام اسماء کا علم عطا فرمایا۔ مگر یاد رہے کہ مشکوٰۃ نبوت سے خوشہ چینی بجز شرح صدر کے ممکن نہیں اور یہ کبھی کبھی ہوتی ہے اور تب ہوتی ہے جب زبان ولغت عاجز آجائیں۔ اس لئے عوام کا علم اس کو پانے سے عاجز ہے ان میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ محکمات کی طرف لوٹا کر دیکھی جائیں گی اور جو معنی اس کے خلاف ہوں گے ان کی قطعی نفی کی جائے گی اور کوئی ایسی تاویل قابل قبول نہ ہوگی جو آیات محکمات کے خلاف ہوگی مثلاً عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد ہے۔ ان ھوالا عید انعمنا علیہ ۔ یا دوسری جگہ ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من تراب۔ اب اگر کوئی قرآن پاک کے ان الفاظ سے کہ ارشاد ہے کلمۃ اللہ یا دوسری جگہ روح ھنہ یہ ثابت کرنا چاہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) الوہیت میں شریک ہیں یا اللہ کے بیٹے ہیں تو درست نہ ہوگا۔ ان آیات کا نزول ہی اس وقت ہوا جب نجران کے عیسائیوں کا وفد خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے عقیدہ تثلیث کو باطل ثابت فرمایا تو کج بحثی کرکے کہنے لگے آپ ﷺ انہیں کلمۃ اللہ نہیں کہتے۔ فرمایا ، بیشک ! تو کہنے لگے بس ! الوہیت ثابت ہے۔ ارشاد ہوا جن کے دلوں میں کجی ہے اور فطرت سلیمہ سے محروم ہیں وہ متشابہات کے پیچھے پڑجاتے ہیں ، اور اپنی خواہشات نفسانی کے مطابق معنی گھڑ لیتے ہیں۔ حروف واعداد : یہاں مفسرین نے ایک اور واقعہ بھی نقل فرمایا ہے کہ یہود نے ابجد کے حساب سے اس امت کی بقاء کی مدت معلوم کرنا چاہی اور حی ابن اخطب اور کعب بن اشرف وغیرہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ ﷺ پر الٓمٓ نازل ہوئی ہے ۔ فرمایا ہاں ! تو کہنے لگے ” ہم اس کو آپ ﷺ کی امت کی مدت زندگی خیال کرتے ہیں اور یہ کل 71 بنتے ہیں۔ پھر پوچھا کہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ ارشاد ہوا ہاں ! المص تو حی بولا ” یہ تو 161 سال ہوگئے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ “ فرمایا الرٰ تو کہنے لگا۔ یہ تو 231 ہوگئے کیا کچھ اور بھی ہے ؟ فرمایا المرٰ تو کہنے لگا یہ تو 371 ہوگئے پھر کہنے لگا یہ بہت گڑ بڑ ہوگئی ہے ہم ایسی باتوں کو نہیں مانتے۔ آج کل بھی شیعہ کو اکثر ابجد کا سہارا لیتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور بعض اہل بدعت ان کی اقتداء کرتے ہیں۔ جو سراسر جہالت اور یہود کی نقل ہے اور ایسا وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں کجی ہے اور لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، اور اپنی پسند کی تاویلوں سے لوگوں کی طرح طرح کے فتنوں سے دوچار کردیتے ہیں۔ یہ سب سے پہلے یہودیوں نے شروع کیا کہ شوکت اسلام کو زک پہنچائیں۔ چناچہ مروریہ ، معتزلہ اور رافضی وغیرہ وجود میں آئے۔ اور کبھی جہلا اس مرض میں مبتلا ہو کر ہلاکت میں پڑتے ہیں جیسے متاخرین اہل بدعت کا وطیرہ ہے حالانکہ ان کی اصلی مراد سے اللہ ہی آگا ہ ہے یعنی جب تک کسی کو اللہ اطلاع نہ دے کوئی نہیں جان سکتا۔ یہاں حصر اضافی ہے ورنہ یہ معنی نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ بھی آگاہ نہیں کہ ارشاد ہے ثم ان علینا بیانہ۔ اس اعتبار سے قرآن کا کوئی حصہ بھی رسول پاک ﷺ کے لئے بغیر بیان کے نہ رہنا چاہیے۔ مقصد یہ کہ بغیر اللہ کے بتائے کوئی بھی محض لغت دانی یا زبان دانی سے نہیں جان سکتا۔ لہٰذا یہ پتہ چل رہا ہے کہ نہ صرف حضور نبی کریم ﷺ بلکہ آپ کے کامل امتی بھی فیضان نبوت سے ضرور اپنا حصہ پاتے ہیں اور اخص الخواص علم لدنی کے ذریعہ سے اس سے واقف ہوتے ہیں جس کا حصول بےکیف ذاتی یا صفاتی معیت کے سبب ہوتا ہے ۔ تحصیل اور کسب کو یہاں دخل نہیں یا پھر راسخون فی العلم۔ جو کہتے ہیں کہ پورا قرآن اللہ کا بھیجا ہوا ہے اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ مفسرین کے نزدیک اس سے اہل السنۃ والجماعت ہیں جو قرآن کی وہی تعبیر وتشریح صحیح مانتے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، سلف صالحین اور اجماع امت سے منقول ہے اور محکمات کو ساری تعلیمات کا محور جان کر متشابہات میں اپنی کوتاہ نظری کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں بلکہ نصیحت حاصل ہی وہ کرتے ہیں جو سالم عقل اور فطرت سلیم رکھتے ہیں اور نہ جاننے کے باوجودک بھی جاننے کے مدعی نہ بنتے ہوں کہ یہ جہل مرکب ہے۔ ربنا لاتزغ قلوبنا…………لا یخلف المعیاد۔ اور ہدایت کو اللہ کی عطا جان کر ، اللہ ہی سے سلامی کے طلب گار رہتے ہیں کہ اے اللہ ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر ! یعنی حق کی طرف سے نہ پھیر دے۔ اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت فرمائی ، کتاب عطا کی اور محکم و متشابہ پر ایمان لانے کی توفیق ارزاں فرمائی۔ غرض ہدایت کا مدار دل کی سلامتی پر ہے اور انہی اعمال کی قیمت بھی ہے خلوص دل سے کئے جائیں۔ انسان کو اصلاح قلب کی طرف متوجہ ہونا دین کی سلامتی کے لئے اشد ضروری ہے جسے آج بھلایا جارہا ہے ، نہ کوئی صاحب دل نظر آتا ہے نہ کوئی اس دولت کا طالب ۔ یوں نظر آتا ہے جیسے یہ بازار اجڑ گیا۔ اس کے طالب جاچکے اب یہ دنیا بھیڑیوں اور درندوں کا مسکن ہے جو انسانی کھالوں میں نظر آتے ہیں۔ لیکن یاد رہے منور القلوب لوگوں سے جہان خالی نہیں ہوتا۔ جب ایسا ہوگا تو پھر یہ جہان ہی نہ ہوگا کہ ارشاد ہے قیامت تب قائم ہوگی حتیٰ لا یقال اللہ اللہ کہ کوئی اللہ ! اللہ ! کہنے والا نہ ہوگا۔ یعنی کوئی ایسانہ ہوگا جس کا دل ذاکر ہو۔ اگر دل ساتھ نہ دے تو زبانی کہنے کا اعتبار نہیں اور نہ یہ اللہ کے عذاب کو روکتا ہے۔ ہر حال میں ایسے لوگوں کی تلاش ضروری ہے اور ان کی صحبت زندگی بخش۔ دعا کرتے ہیں اے اللہ ! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کر ۔ اور یہ رحمت محض مال ومنال نہیں بلکہ وہ مجلس ہے جہاں رحمت باری بٹتی ہے وہ استقامت مراد ہے جو دین پر نصیب ہو اور اہل اللہ کی مجالس ہی رحمت باری کا مہبط ہوا کرتی ہیں کہ ارشاد ہے ، اے اللہ ! تو ہی عطا کرنے والا ہے اور تو ضرور ہر ایک کو میدان حشر میں جمع فرمائے گا جس کے وقوع یا جزا وسزا میں کسی ادنیٰ شبہ کی بھی کوئی گنجائش نہیں ، اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ کبھی اپنے وعدہ کے خلاف نہ کرے گا۔ بھلائی کا وعدہ پورا نہ کرنا تو شان الوہیت سے تو بعید ہے معتزلہ کے نزدیک عہد عذاب کی خلاف ورزی بھی جائز نہیں ، مگر سوائے کفر اور شرک کے جن پر اللہ نے فرمایا کہ نہ بخشوں گا ، کیسے بھی ہوں ، عفو و درگزر سے متجاوز نہیں۔ اور جس طرح عذاب عدم توبہ سے مشروط ہے اسی طرح عد عفو و درگزر سے بھی مشروط ہے اگر اللہ رحم کرکے بخش دے تو یہ وعدہ خلافی ہرگز نہ ہوگی۔
Top