Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب تم لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو یقینا اللہ تم کو اچھی بات کی نصیحت کرتے ہیں یقینا اللہ سننے والے ، دیکھنے والے ہیں
اسرار و معارف آیت نمبر 58 تا 59: ان اللہ یا مرکم۔۔۔ احسن تاویلا۔ اب رہی وہاں پہنچنے کی صورت تو ان دو آیات میں اس کی ساری تفصیل سمو دی گئی ہے پہلی صورت ہے ایمان باللہ کہ بغیر ایمان کے اللہ کریم کی اطاعت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور دوسری عمل کی ہے جس کے بغیر دعوی ایمان ہی محل نظر ہے تو ارشاد ہوا کہ اللہ کریم دو باتوں کا حکم دیتے ہیں اول یہ کہ امانت اس شخص کو دو جو اس کا اہل ہو اور دوسرے یہ کہ لوگوں کے مابین انصاف کرو۔ امانت کا معنی بہت وسیع ہے بظاہر تو اس مال کو امانت کہا جاتا ہے جو کسی نے مناسب موقع پر واپس لینے کے لیے دیا ہو خواہ وہ قرض کی صورت میں ہو یا محض کچھ عرصہ رکھنے کو دیا ہو مگر اس میں ہر وہ بات اور عمل داخل ہے جو دوسرے افراد کو متاثر کرتا ہو خصوصاً حکومت کے عہدے اور مناصب۔ کہ اصل حکومت ذات باریکو سزاوار ہے اور انسان اس کا خلیفہ نائب یا امین ہے لہذا عہدے اور مراتب ان لوگوں کو دئیے جائیں جو اس کام کی اہلیت رکھتے ہوں اور اسے بخوبی انجام دے سکیں بلکہ علمی اور عملی اعتبار سے اہلیت رکھنے والے افراد تلاش کرنا اور انہیں ذمہ داری سونپنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور محض سفارش یا دوستی کی بنا پر یا اقربا پروری کرتے ہوئے کسی نااہل کو عہد و منصب دینے والے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے یہ بہت بڑا ظلم ہے اپنے ساتھ اس شخص کے ساتھ اور قوم اور ملک کے ساتھ کہ جب مناصب نا اہلوں کے پاس ہوں گے تو ابتری پھیلے گی خلق خدا پریشان ہوگی اور نظام سلطنت برباد ہوگا ایسے ہی ووٹ بھی امانت ہے کہ ہم اس کے ذریعہ کسی کو امور سلطنت میں شریک کرتے ہیں یا ملک کا حاکم تسلیم کرتے ہیں وہاں بھی ذات برادری یا مقامی اور مہاجر یا سندھی بلوچی پٹھان پنجابی وغیرہ کی جگہ ایسا بندہ حقدار ثابت ہوگا جو ایماندار صالح اور منصب کی اہلیت بھی رکھتا ہو صرف نیکی کافی نہ ہوگی جیسا کہ حضرت ابوذر نے درخواست کی تھی کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے بھی کوئی خدمت سونپی جائے تو فرمایا آپ ضعیف آدمی ہیں اور منصب تو امانت ہوتا ہے جس کے باعث آخرت میں رسوائی ہوگی سوائے اس کے ، جس نے اس کا حق ادا کردیا اوکما قال بلکہ ووٹ میں تو ایک طرح سے شہادت بھی پائی جاتی ہے کہ ووٹ دینے والا ان امور پر مطمئن ہے کہ یہ شخص ایماندار نیک امانتدار ہونے کے ساتھ ساتھ اس منصب کا اہل بھی ہے اس طرح سے حکومت وقت اور عوام اپنی اپنی جگہ دونوں ذمہ دار ہیں۔ یہ بھی درست نہیں کہ صوبوں یا قبیلوں پر عہدوں کو بانٹ دیا جائے بلکہ قومی امور میں ایسے افراد کو تلاش کیا جائے جو قومی سطح پر کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں خواہ وہ سب ایک ہی صوبے یا قبیلے سے متعلق ہوں کہ یہاں شرط اہلیت و استعداد ہے قبیلہ نہیں اسی طرح صوبائی ضلعی اور دیہی سطح پر افراد تلاش کرکے ان کے ذمے امور کرنا یہ حکومت کا فرض ہے اور جب انتخاب عوام کی طرف سے ہوتا ہے تو وہاں یہی ذمہ داری عوام پہ آجاتی ہے ایسی صورت حال میں کہ جب کوئی بھی ایسا شخص نہ مل رہا ہو جو کماحقہ اہلیت رکھتا ہو تو جو افراد سامنے ہوں ان میں سے سب سے قابل پھر اس کے بعد دوسروں سے قابل ترین شخص کو لیا جائے گا۔ ورنہ اللہ کی امانت میں بھی خیانت کا ارتکاب ہوگا اور قوم اور ملک کے حقوق میں بھی خیانت پائی جائے گی۔ رشوت لے کر ایسا کرنا تو دوسروں کے حقوق نیلام کرنے کے مترادف ہے دوسری بات ہے عدل یعنی جب دو انسانوں کے درمیان کوئی بات ہو تو حکومت ، حاکم یا ثالث جو بھی فیصلہ کرنے والا ہو وہ انصاف کرے اور یہ انصاف ہر ملک میں اس کے سب شہریوں کا حق ہے اللہ کی طرف سے انہیں بغیر کسی مذہب و مسلک کی تفریق اور رنگ و نسل کے امتیاز کے دیا گیا ہے یہاں بین الناس فرما کر یہ حق انسانیت کو بخشا ہے کہ عموماً تو حکومت یا متعلقہ حاکم کی ذمہ داری ہے کہ ہر بات کا فیصلہ انصاف سے کیا جائے کہ عدل کے مقابل ظلم ہوتا ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کو اس کے مقام سے ہٹا دینا اور غیر محل پر رکھنا اور فوراً انصاف کرنا لوگوں کو ظلم اور زیادتی سے بچانا یہ سب امور حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں اور حاکم سے پورے ملک کے ایک ایک فرد کا حساب لیا جائے گا فرمایا اللہ تمہیں بہترین نصیحت فرماتے ہیں جس سے تمہیں دنیا میں بھی امن و سکون عزت و شہرت ملے اور آخرت میں بھی سر بلندی نصیب ہو یہ ضرور جان لو کہ اللہ سب کی سنتا ہے جو فریاد کرسکتے ہیں ان کی بھی اور جو فریاد تک نہیں کرسکتے ان کی بھی نیز وہ ہر حال اور ہر شے کو خود دیکھ رہا ہے خواہ وہ ظاہر ہے یا سینکڑوں پردوں میں پوشیدہ رہی بات کہ انصاف کیسے ہوگا اور عدل کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کس طرح کسی کا حق مقرر کیا جاسکے گا تو فرمایا اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی نیز ان لوگوں کی بھی اطاعت کرو جو تم میں سے صاحب اختیار و اقتدار ہیں تو اس طرح سے بیک وقت تین اطاعتیں فرض ہوگئیں مگر فی الحقیقت اطاعت صرف ایک ہستی کی ہی کی جائے گی جو اللہ رب العزت کی ہے جس پر عمل کی صورتیں مختلف ہیں اور اول وہ امور جن کا حکم قرآن حکیم میں واضح طور پر موجود ہے اس میں کسی طرح کی مداخلت نہ کی جاسکے گی جیسے اللہ کی توحید یا کفر و شرک کا گناہ عظیم ہونا اللہ ہی کی عبادت کرنا حضور اکرم ﷺ کا آخری اور برحق نبی ماننا آخرت پر یقین رکھنا قیامت عذاب وثواب یا فرشتوں کا یقین رکھنا یا ارکان دین کا اقرار اور حلال و حرام کا اقرار کرنا وگیر زالک ، ضروریات کو شامل ہے دوسرا درجہ ان امور کا ہے جن کا بیان کتاب میں مجمل ہے اور تفصیل و تشریح ارشاداتِ رسول ﷺ میں فرمائی گئی ہے در اصل یہ بھی وحی الہی ہے جس میں مفہوم اللہ کی طرف سے ہے اور الفاظ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں یہ بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے مگر بظاہر چونکہ قرآن نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے ارشادات ہیں اسلیے آعنت رسول کا حکم ارشاد فرمایا گیا جو لوگ صرف قرآن کریم ہی کے الفاظ سے مطلب اخذ کرنا چاہتے ہیں ان کیلئے لمحہ فکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ اطاعت رسول کا حکم مستقلا موجود ہے اور تیسرا درجہ ان امور کا ہے جو نہ قرآن میں صراحۃ بیان ہوئے نہ حدیث میں واضح حکم ملتا ہے ان میں علما مجتہدین کا کام ہے جو ذخیرہ حدیث اور مضامین قرآن پر نطر رکھنے والے ہیں کہ زیر نظر مسئلہ کی نظیر کو قرآن و سنت سے تلاش کرکے اس پہ حکم لگائیں۔ در اصل یہ بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے مگر باعتبار ظاہر فقہا کی طرف منسوب ہے اس لیے فقہی احکام کہلائے گی اور چوتھے درجہ میں وہ امور ہیں جن پر اللہ و رسول کی طرف سے کوئی پابندی نہیں بلکہ عمل کرنے والوں کی صواب دید پر ہیں انہیں مباحات کہا جاتا ہے یہ امور حکام سے متعلق ہیں جو افراد اور معاشرے کی بہتری کے لیے اصول یا قانون بنا دیتے ہیں ان میں حاکم کی اطاعت کی جائے گی جیسے کسی شہر میں ڈاک کا انتظام کیا ہوگا یا کہاں کہاں پولیس ستیشن ہوں گے سرک کہاں بنے گی یا موٹر ریل اور جہاز کے اوقات کیا ہوں گے کس کس مقام پر فوجی چھاؤنی بنے گی اور اس میں کسقدر فوج رکھی جائے گی یہ ایسے کام ہیں جو امور انتظامی سے تعلق رکھتے ہیں اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انہیں عوام کے بہترین مفاد میں ترتیب دے اور عوام رپ ان کی اطاعت واجب ہے اور اطاعت الہی میں داخل ہے اس میں اعتبار سے علماء دین اور حکام یا حکومت دونوں اولی الامر میں شامل ہوں گے یعنی واضح حکم ہو تو قرآن کی اطاعت ، تفسیر و تشریح کی ضرورت ہو تو رسول کریم کی اطاعت اور غیر واضح امور میں فقہا اور علما کی اطاعت اور امور انتظامی میں حکام اور حکومت کی اطاعت یہ اللہ کی اطاعت کی چار صورتیں ہوں گی جن پر عمل امانت ہے اور جن سے روگردانی امانت اللہ میں خیانت کے مترادف ہے یہ بھی یاد رہے کہ علماء حکام کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتے جو اللہ کریم کے حکم کے خلاف ہو علما کو یہ حق حاصل نہیں کہ کتاب اللہ یا حدیث رسول ﷺ کی منشاء کے خلاف محض لغوی معانی وغیرہ کا سہارا لے کر اور کھینچ تان کر کوئی حکم دیں ایسا کرنے والے امانت دار نہ رہیں گے اور نہ ان کی بات مانی جائے گی اور غالباً اسی طرح کی کوششوں کو اجتہاد کا نام دے کر اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھنے کی فرمائشیں ہوتی ہیں ورنہ کسی بھی نئی پیدا شدہ صورت حال کی نظیر قرآن و حدیث سے تلاش کرکے اس کے مطابق حکم لگانے سے تو اسلام میں کوئی ممانعت نہیں ایسے ہی حکومت یا حکام کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ کے حکم کیخلاف قانون نافذ کریں یا حکم دیں ایسی صورت میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی کہ ارشادات رسول مقبول ﷺ میں موجود ہے کہ اللہ کی نافرمانی کرکے مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ اسی لیے ارشاد ہوا کہ اگر کسی بات پہ اختلاف پیدا ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اور رسول کی جانب رجوع کرو ظاہر ہے کہ اختلاف اسی صورت میں ہوگا جب واضح احکام موجود نہ ہوں گے ورنہ تو اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں تو پھر عمل انہی صورتوں پہ ہوگا جو علماء حق نے کتاب و سنت پر غور کرکے اور ان کی نظیر دریافت کرکے حکم لگائے ہوں گے اور یہی بہترین صورت ہے کہ واضح احکام میں اختلاف نہ کیا جائے اللہ کی عظمت اور اپنی بےبضاعتی پہ نظر رکھنا چاہیے دوسری صورت میں بھی علماء اور حکام کے ساتھ انسانیت اور مسلمانوں کے مفاد میں تعاون ہی بہتر صورت ہے اور اسی سے بہترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں دنیا میں بھی اور اخرت کی ابدی زندگی میں بھی۔
Top