Mazhar-ul-Quran - Al-An'aam : 229
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اَوَ : کیا مَنْ : جو كَانَ مَيْتًا : مردہ تھا فَاَحْيَيْنٰهُ : پھر ہم نے اس کو زندہ کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا لَهٗ : اس کے لیے نُوْرًا : نور يَّمْشِيْ : وہ چلتا ہے بِهٖ : اس سے فِي : میں النَّاسِ : لوگ كَمَنْ مَّثَلُهٗ : اس جیسا۔ جو فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے لَيْسَ : نہیں بِخَارِجٍ : نکلنے والا مِّنْهَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح زُيِّنَ : زینت دئیے گئے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے (عمل)
یہ طلاق (رجعی) جس کے بعد رجوع بھی ہو سکتا ہے دو بار تک ہے پھر ( دو طلاقوں کے بعد یا تو) بھلائی کے ساتھ (زوجیت میں) رکھنا ہے یا حسن سلوک کے ساتھ رخصت کردینا اور تم کو یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم نے عورتوں کو دیا تھا اس میں سے کچھ واپس لو مگر یہ کہ جب میاں بی بی کو (اس بات کا) خوف ہو کہ خدا کی حدوں پر قائم نہ رہ سکیں گے تو اس صورت میں ( اے مسلمانو ! ) تم کو اس بات کا خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدوں پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے، یہ اللہ کی حدیں مقرر کی ہوئی ہیں ان سے آ گے نہ بڑھو اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے آ گے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں
بیان نکاح و طلاق شان نزول : اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے طلاق کی کوئی حد اور گنتی نہیں تھی جس قدر طلاقیں مرد اپنی عورت کو دے دیتا عدت کی مدت کے اندر پھر رجوع کرسکتا تھا۔ اس طریقہ کے بند کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ جس سے اب یہ حک شرعی ٹھہر گیا کہ تین طلاق کے بعد کوئی حق رجوع کرنے کا مرد کو باقی نہیں۔ ولا یحل لکم ان تاخذوا الخ اس آیت میں دو حکم ہیں۔ شروع آیت میں ہے کہ بغیر مرضی عورت کے مرد کے لئے اس مال کو جو مہر کے طور پر یا عطیہ کے طور پر ایک دفعہ دے چکا ہے، اپنے تصرف میں لانے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ وہ اس مال کی مالک بن چکی ہے اور آخر آیت میں عورت کے خلع کا حکم ہے یعنی جب میاں بی بی میں ناموافقت ہو اور کچھ مال عورت خاوند کو دے کر مفارقت کرلے تو اس کو خلع کہتے ہیں۔
Top