Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
اور ایسے لوگوں کو (اس سے) ڈرائیے جو اس بات کا اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کیے جائیں کہ اس کے سوا کوئی ان کا دوست ہوگا اور نہ شفاعت کرنے والا تاکہ وہ بچ سکیں
رکوع نمبر 6 ۔ آیات نمبر 51 تا 55 ۔ اسرار و معارف : بحث سے اعراض : آپ ان کی کج بحثی کا جواب تک نہ دیں کہ یہ لوگ اصلاح کی طلب نہیں رکھتے بلکہ آپ ان لوگوں کو توجہ دیجئے جو کم از کم اس بات کی توقع تو کرتے ہوں کہ کبھی اللہ کے روبرو بھی جانا ہوگا اور یہ امکان تخلیقی طور پر انسانی فطرت میں موجود ہوتا ہے اگر وہ کثرت گناہ سے اسے ضائع نہ کعچکا ہو نیز اہل کتاب کے ہاں اور مشرکین عرب کے ہاں بھی دین ابراہیمی کی بچی کھچی باتوں میں سے یہ تصور موجود تھا تفسیر مظہری میں ہے کہ اس دور کے مسلمان مراد لینا درست نہ ہوگا وہ تو سب درجہ اجتہادیہ فائز تھے ہاں ایسے لوگ جو درجہ احتمال میں ہی سہی آخرت کا تصور تو رکھتے ہوں انہیں یہ سمجھائیے کہ اس روز کوئی ایسا معبود یا کوئی اسی ہستی جس کی آس اللہ کے سوا لگا رکھی ہو کام نہ آئے گی نہ مدد کرسکے گی نہ نسفارش لہذا اس روز کیلئے صرف اللہ کی عبادت اختیار کریں اور اس کی اطاعت کو شعار بنائیں۔ اس حکم میں مبلغین کے لیے بھی بہت اچھا سبق ہے کہ محض بحث کرنا مقصد نہیں بلکہ افہام و تفہیم کے لیے کی جائے اگر اس کی امید نہ ہو تو وقت ضائع نہ کیا جائے۔ عزت کا معیار : انکار کے بھی کئی انداز ہوتے ہیں اور غلط کار انسان بھی ایسی راہ تلاش کرنا چاہتا ہے کہ کم از کم معاشرے میں وہ خود کو سچا ثابت کرسکے مشرکین مکہ نے بھی ایک ایسا بہانہ تلاش کیا۔ کہنے لگے ہم ان کی بات ضرور سنتے جواب دیتے سمجھنے سمجھانے کی کوشش کرتے مگر ان کے پاس تو ایسے لوگ جمع رہتے ہیں جو یا تو کبھی ہمارے غلام تھے یا مفلس اور غربا تو ہم ان میں بیٹھ کر کیسے بات کریں یہ ایک موقع تھا جب سیدنا فاروق اعظم نے بھی عرض کیا کہ ہم سب تو غلام ہیں آپ حکم دیں سب الگ ہوجائیں گے یہ آپ کی بات سن لیں خدام تو اس میں بھی خوش ہوں گے مفسرین کرام نے متعدد صحابہ کے نام گنوائے ہیں اور یہ سب لوگ باعتبار دولت دنیا غریب تے ۔ اور جو لوگ اسلام کے نور سے محروم ہیں ان کے نزدیک دولت دنیا ہی معیار شرافت ہے اگرچہ کسی کا ایمان و عمل بالکل تباہ ہوچکا ہو دولت مند نہ ہونے کی وجہ سے رذیل شمار کیا جاتا ہے انسانی زندگی کو حیوانی معیار پر تولنا اللہ کریم کے نزدیک اس کی توہین ہے بلکہ جو شخص ایمان و عمل اخلاق و کردار میں انسانی معیار پر پورا اترے عنداللہ وہ قابل عزت ہے ورنہ کھانا پینا توالد تناسل اور گھر بار تو جانور بھی بنا لیتے ہیں۔ اگر انسانی سوچ بھی اسی جگہ تک پہنچی تو کیا فرق پڑ انسانیت تو اس شعور کا نام ہے جس سے ذات وصفات باری کی پہچان نصیب ہوتی ہے جن صحابہ کو مشرکین مفلس جان کر اٹھانے کا مطالبہ کر رہے تھے اللہ نے روک دیا اور فرمایا یہی تو میرے بندے ہیں جن کا کوئی لمحہ میری یاد سے خالی نہیں اور یہ اتنے اولو العزم لوگ ہیں کہ زمین پہ بستے ہیں مگر دیدار باری کے طالب ہیں ان سے بڑھ کر معزز کون ہوگا کہ اطلس و حریر میں لپٹے ہوئے بدن جن کے اندر دل میری یاد سے خالی اور ویران ہیں ان کے لیے یہ جگہ خالی کردیں ہرگز نہیں اللہ کے نزدیک دولت دنیا کی کوئی حیثیت نہیں اگر ہوتی تو کافر کو کچھ بھی نہ ملتا یہ ایک الگ نظام ہے جس میں تنگی و فراخی رزق ، صحت و بیماری جوانی اور بڑھایا اپنے اپنے وقت پر آتے اور جاتے رہتے ہیں مگر معیار انسانیت و شرافت انسان کا وہ دلی تعلق ہے جو الہ سے استوار ہوتا ہے چناچہ انہیں بات کرنا ہوگی تو ان کے ہوتے ہوئے کرلیں گے نہیں کرنا چاہتے تو آپ نے ان کے حساب کی ذمہ داری تو نہیں لے رکھی انہیں خود حساب دینا ہے اور نہ ان کی کوئی مداخلت آپ کے حساب کی ذمہ داری تو نہیں لے رکھی انہیں خود حساب دینا ہے اور نہ ان کی کوئی مداخلت آپ کے حساب میں ہے یعنی آپ نے جو کرنا ہے وہ بھی اللہ کے لیے ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ بھی اللہ کے حضور جوابدہ ہیں پھر یہ بلا جواز تکلف کیسا کہ آپ انہیں اہمیت دیں جو کسی اہمیت کا حق نہیں رکھتے اور انہیں اٹھا دیا جائے جو اللہ کے حضور ایک بہتر بڑا مرتبہ رکھتے ہیں ک ہر آن اسی کی یاد میں اور اس کی طلب میں تڑپ رہے ہیں اگر ایسا ہو تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہوگی جو نہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے نہ آپ ﷺ کی شان کے ساتھ زیب دیتی ہے چناچہ یہ موقع تاھ کہ سیدنا عمر نے توبہ کی اور اپنی رائے سے رجوع کیا اگرچہ کفار کو تبلیغ کا موقع فراہم کرنا چاہتے تھے مگر مومنین کی تذلیل کرکے ایسا کرنا اللہ کو گوارا نہ تھا۔ مومنین و مخلصین کا دنیا کے اعتبار سے غریب ہونا کفار و مشرکین کے لیے ایک اور آزمائش کا سبب بھی ہے کہ جب تک معیار انسانیت کے بارے میں رائے درست نہ ہو اور یہی خیال رہے کہ اچھا انسان یا شریف شہری وہی ہے جس کے پاس دولت ہو مکان اور کارخانے ہوں یا دنیا میں استعمال کرنے کے اسباب کثرت سے ہوں تب تک ایمان کی لذت سے آشنا نہ ہوسکے گا اس لیے بھی یہ ضروری ہے کہ انسان کی پرکھ یا معیار اس کے عقائد و اعمال اخلاق و کردار ہوں اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو اصلاح پذیر ہونے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی لہذا اہل اللہ کا دنیا کے لحاظ سے غریب ہونا اللہ کے نزدیک ان کی عزت کم نہیں کرتا بسا اوقات بڑھا دیتا ہے اور اگر انہیں دولت دنیا مل بھی جائے جیسا کہ بعد میں صحابہ کرام بہت زیادہ امیر بھی ہوگئے تے تو بھی ان کے ہاں معیار انسانیت و شرافت نیکی اور تقوی ہی قرار پاتا ہے یہ تو قوموں کی بدنصیبی ہے جب معیار بدل جاتے ہیں اور نری دولت ہی شرافت قرار پاتی ہے جیسے آج تقریباً باقی دنیا کے ساتھ ملک عزیز میں بھی یہی حال ہے کہ حکومت چناؤ کرے تو بھی اور عوام ووٹ دیں تو بھی ہر دو کو امراء میں ہی شرافت نظر آتی ہے خواہ وہ اللہ کے نام سے بھی واقف نہ ہوں حرام کھاتے ہوں بدکار ہوں کچھ بھی ہوں بس دولت مند ہوں تو شہر کی اہم شخصیت قرار پاتے ہیں یہ صورت حال ابتلائے الہی ہے ایک آزمائش ہے کہ اس قسم کے متکبر امراء ان شخصیات پہ نظر کرکے جو واقعی نیک اور صالح ہوں مگر غریب ہوں کہہ اٹھتے ہیں انہیں تم خوش نصیب کہتے ہو کیا یہ لوگ جن پر اللہ کا احسان ہے اور وہ بھی ہمارے مقابلے میں یعنی اگر احسان ہے یا رضامندی ہے تو وہ ہمارے ساتھ ہے کہ ہمارے پاس دولت ہے اقتدار ہے ان کے پاس کیا ہے نادان یہ بھول جاتے ہیں کہ تم اس کی یاد سے محروم اور اس کی اطاعت سے بیگانہ ہو تم سے کیسے خوش ہوگا خوش تو ان سے ہے جن کو جسموں پر اگرچہ کم قیمت لباس ہے مگر دلوں میں تجلیات باری رقصان ہیں جس مبارک نام سے تمہاری زباں تک واقف نہیں رہی اس سے ان کے بدن کا رواں رواں روشن ہے اور تمہاری دولت و اقتدار جس کے ساتھ اللہ کی نافرمانی جمع ہے تمہیں کس گڑے میں پھینکے گی تم اس کا خیال کیوں نہیں کرتے تمہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اللہ کریم تو شکر گزار بندوں کی آہو کو رائیگاں نہیں جانے دے گا وہ لمحے جو اس کی طلب میں بسر ہوئے وہ راتیں جو اس کی یاد میں کٹیں وہ دن جو اس کی طلب میں بیتے اور وہ مبارک افراد جن کے ہر کام میں اس کی رضامندی کی طلب نظر آتی ہے بھلا اس کی نگاہ کرم سے محروم رہ سکتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا انہیں کے دل آباد ہوں گے اور ہمیشہ کی خوشی بھی انہیں کے حصہ میں آئے گی اپنے اس فیصلے کے لیے اللہ کریم کو امراء سے کسی مشورہ کی ضرورت بھی نہیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر آپ مومنین کو خوشخبری دیجئے جب بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہوں تو انہیں کہئے تم پر سلامتی ہو یعنی ایک تو یہ بشارت کہ کفار ملحدین طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہوں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی مگر تم ہر طرح سے مامون ہو کہ تمہارے رب نے تم پر رحمت کرنے اور تمہیں انعامات سے مسسل نوازتے رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیجئے کہ بتقاضائے بشریت اگر خطا ہوجائے جہالت سے نادانی سے اگر گناہ کر بیٹھو تو فوراً توبہ کرو اور اپنی اصلاح کرلو کہ مطلق گناہ نہ کرنا تو انبیاء کا وصف ہے یا فرشتے کا باقی سب سے ممکن ہے اگرچہ ساری عمر کسی سے صادر نہ ہو مگر خطرہ تو ہے اور اگر ہوجائے تو علماء کا قول ہے کہ ہر گناہ جہالت ہے لہذا فوراً توبہ کرنی چاہئے اگر توبہ کرکے توڑ دی پھر گناہ صادر ہوگیا تو بھی اس کا علاج توبہ ہی ہے اور توبہ سے مراد یہ ہے کہ جو ہوچکا اس پر ندامت ہو اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرے تو اللہ کریم بہت بڑا بخشنے والا ہے ہمارا اندازِ بیان تو اسی طرح سے تفصیل کے ساتھ اور عام فہم ہوتا ہے کہ ان ارشادات اور نزول کتاب کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسانی زندگی کے راستے میں جس قدر خطرات ہیں سب سامنے آجائیں اور واضح ہوجائیں پھر کوئی اندھا بن کر گڑھوں میں گرے تو یہ اس کی اپنی پسند ہوگی ورنہ نیکی و بدی شرافت و رذالت بھلائی اور برائی نیز اعمال اور ان کے نتائج دنیا میں اور اس کے بعد حقیقی اور ابدی زندگی میں کیا ہوں گے یہ واضح کردیا گیا ہے۔
Top