Tafseer-e-Haqqani - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
اور (اے نبی ! ) اس قرآن سے ان لوگوں کو ڈر سناؤ کہ جو اپنے رب کے پاس حاضر ہونے سے ڈرتے ہیں حالانکہ ان کے سوا ان کا نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ سفارش کرنے والا تاکہ وہ بچتے رہیں
ترکیب : یخافون کا مفعول ان یحشروا جملہ لیس لہم ضمیر فاعل یحشروا سے حال ہے غداوۃ ہے۔ العشی کو بعض مفرد کہتے ہیں۔ بعض جمع عشیۃ یریدون حال ہے من شیئٍ سے من زائدہ اور شیء مبتداء ہے علیک اس کی اصل خبر من حسابہم صفت شیء اس پر مقدم ہوگئی۔ اس لئے حال ہوگئی فتطرد جواب ہے ما نافیہ کا اس لئے منصوب ہوگیا گویا کہ یہ جواب النہی ہے ای لانظر۔ تفسیر : پہلے تھا کہ انبیاء خدا کی طرف سے خوشی اور ڈر سنانے کو آتے ہیں اس لئے آنحضرت ﷺ کو اس جگہ ڈر سنانے کا حکم ہوتا ہے اور خوف کو اس لئے یہاں ترجیح دی کہ منافع حاصل کرنے سے جو خوشی کا محل ہے اپنے نفس سے مضرت کا دور کرنا جو محل خطر ہے مقدم اور ارجح ہے اور خوف سنانے میں ان لوگوں کو مخصوص کیا کہ جو خدا کے پاس حاضر ہونے کے دن سے ڈرتے ہیں کہ جہاں اس کے مقابلہ میں نہ کوئی حمایتی ہوگا نہ سفارشی۔ اس لئے کہ دراصل خطرناک باتیں سن کر یہی لوگ پرہیز کیا کرتے ہیں اور جس کو قیامت کا یقین ہی نہیں وہ اس وعظ و پند اور خطرناک باتوں سے منتفع کم ہوتا ہے اور اس میں اثبات حشر کی طرف بھی ایک عجیب لطف کے ساتھ ایماء ہے اور منکرین حشر پر وہ تعریض ہے جو نفس پر اثر کرتی ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ الذین یخافون الخ سے مراد کفار ہیں کیونکہ ڈر تو خدا کے پاس جانے سے انہیں کو ہونا چاہیے سو ان کا ڈرانا زیادہ مقصود ہے اور قوی یہ ہے کہ آیت میں عموم ہے۔ ولا تطرد الذین چونکہ اتدار کا حکم ان کے لئے تھا کہ جو قیامت پر ایمان رکھتے اور اپنے رب کے پاس حاضر ہونے سے اپنے قصور اعمال کی وجہ سے ڈرتے ہیں اور جبکہ یہ سورة نازل ہوئی اس وقت مکہ میں بیشتر غرباء اور فقراء ہی قیامت پر ایمان لانے والے اور اللہ سے ڈرنے والے تھے جن کو مکہ کے دولت مند اور رئیس کفار بنظر حقارت دیکھتے تھے اور خدا کی بادشاہت میں دخل ہونے کا مستحق نہ سمجھتے تھے بلکہ وہاں سے نکالے جانے کے قابل دنیا پر قیاس کرکے اس لئے آنحضرت ﷺ کو یہ حکم ہوا کہ تم ان پاک بازوں کو جو صبح اور شام اللہ کو اللہ ہی کے لئے پکارتے اور یاد کرتے ہیں عام ہے کہ نماز پڑھنے یا ذکر کرنے یا دعا کرنے سے ہو یعنی یہ گروہ طالبان مولیٰ ہے ان کی حقارت و ذلت ظاہری کا اے مخاطب تجھ سے کچھ حساب نہیں اور نہ آپ کا کچھ محاسبہ ان سے ہے یعنی یہ کسی کا کیا لیتے ہیں اور کسی کو کیا دکھ دیتے ہیں جو ان سے اعراض کیا جاوے اور جو ان سے اعراض کرے گا تو خود خسارہ میں پڑے گا اور دولت دنیا اور اس کے اسباب مفاخر ہمارے ہاں کوئی عزت و امتیاز کی علامت نہیں۔ یہ دنیا میں ایک دوسرے کی آزمائش کے لئے ہے تاکہ غریب کو دیکھ کر امیر شکر بھی کرتا ہے کہ نہیں اور تاکہ متکبر لوگ ان فقراء کو دیکھ کر طعن کی راہ سے یہ کہیں کہ کیا وہ یہی ہیں کہ جن پر ہم میں سے خدا نے احسان کیا ہے کہ ان کو دینی بزرگی دی یا یوں کہو کہ مفلس لوگ اغنیاء کو دیکھ کر یہ کہیں کہ خدا نے ان کو نعمت دی۔ ان کو شکر ہم کو صبر کرنا چاہیے اور جو شکر کرے گا تو وہ خدا سے مخفی نہ رہے گا۔ پھر اس جماعت کی نسبت حکم دیتا ہے کہ اے نبی جیسا یہ تیرے پاس آویں تو آپ ان کو سلام کہیں اور یہ مژدہ سنائیں کہ خدا نے تمہارے لئے اپنی ذات پر مہربانی کرنی لازم کرلی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص نادانستگی سے گناہ کرلے گا پھر اس کے بعد تائب اور صالح ہوجائے گا تو خدا معاف کر دے گا۔ نہ آنحضرت ﷺ نے اس گروہ کو اپنے پاس سے نکالا تھا نہ نکالنے کا قصد کیا تھا بلکہ یہ حکم صرف ان متکبرین کے مقابلہ میں دیا گیا ہے تاکہ ان کی عزت و حرمت ثابت ہو۔ عطا نے کہا ہے کہ اس جماعت کے لئے یہ آیت نازل ہوئی ان میں خلفائِ اربعہ اور بلال وسالم و ابی عبیدہ و مصعب بن عمیر و جعفر و ابن مظعون و عمار بن یاسر و ارقم بن ابی ارقم و ابی سلمۃ بن عبدالاسد ہیں۔ ؓ ۔ سلمان اور خباب فرماتے تھے کہ یہ ہمارے لئے نازل ہوئی ہے۔ آنحضرت ﷺ ہم فقراء کے ساتھ نہایت انس و محبت کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ چونکہ یہ سورة باتفاق مفسرین مکہ میں یکبارگی نازل ہوئی۔ اس لئے اس کی ہر ہر آیت کے لئے ایک جداگانہ شان نزول ہونا خیال میں نہیں آتا کہ فلاں آیت یہ ہوا تھا تو نازل ہوئی اور فلاں اس میں۔ اس لئے ان آیات کے صاف صاف معنی ہم نے اوپر بیان کردیے جس میں کوئی قصہ طلب بات نہیں کہ جس کے لئے کوئی خاص شان نزول تلاش کرنا پڑے لیکن مفسرین نے ولاتطرد الذین الخ کے لئے مختلف شان نزول نقل کئے ہیں۔ تفسیر کبیر میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے کہ مکہ میں ایک بار آنحضرت ﷺ کے پاس قریش کے معززوں کی ایک جماعت گذری اور آپ کے پاس اس وقت صہیب اور بلال اور عمار و خباب وغیرہم ؓ فقراء حاضر تھے۔ ان کو دیکھ کر قریش نے کہا کہ آپ نے کیا انہیں کو پسند کرلیا ؟ اب ہم ان کے مطیع بنیں ٗ اگر آپ ان کو دھتکار دیں تو شاید ہم لوگ آپ کے تابع ہوجاویں۔ آپ نے اس سے انکار کیا۔ پھر کہا اچھا جب ہم آویں تب ان کو اٹھا دیا کریں۔ اس پر آپ نے کفار قریش کے ایمان لانے کے لئے ہاں کردی جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم التنزیل میں اقرع بن حابس تمیمی و عیینہ بن حصین فزاری کا قصہ لکھا ہے کہ انہوں نے یہ بات چاہی تھی اور ممکن ہے کہ انہوں نے بھی تنفر کیا ہو۔ فقیر کے نزدیک اس شان نزول کے معنی وہ ہیں جو مقدمہ تفسیر میں ذکر ہوئے کہ مکہ کے سرداروں نے یا اور متکبروں نے فقراء المسلمین کے ساتھ مل کر بیٹھنا پسند نہ کیا۔ اس پر آنحضرت ﷺ کے دل میں ان آیات نازل شدہ کا القاء ہوا گویا یہ القاء ہونا نازل ہونا ہے۔ اس تقدیر پر سب روایات میں بشرط ثبوت توافق ممکن ہے واللہ اعلم۔
Top