Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 158
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا اِ۟لَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١۪ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگو اِنِّىْ : بیشک میں رَسُوْلُ : رسول اللّٰهِ : اللہ اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف جَمِيْعَۨا : سب الَّذِيْ : وہ جو لَهٗ : اس کی مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا : مگر هُوَ : وہ يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے فَاٰمِنُوْا : سو تم ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهِ : اور اس کا رسول النَّبِيِّ : نبی الْاُمِّيِّ : امی الَّذِيْ : وہ جو يُؤْمِنُ : ایمان رکھتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَكَلِمٰتِهٖ : اور اس کے سب کلام وَاتَّبِعُوْهُ : اور اس کی پیروی کرو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : ہدایت پاؤ
آپ فرمادیجئے کہ اے لوگو ! یقینا میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں (وہ) جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی (حقیقی) حکومت ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے پیغمبر نبی امی (حضرت محمد ﷺ پر جو (خود) اللہ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ
رکوع نمبر 20 ۔ آیات 158 ۔ تا۔ 162 ۔ اسرار و معارف : جب آپ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء آپ کی خبر پہنچاتے رہے اور اپنی اپنی امت سے آپ پر ایمان لانے کا مطالبہ فرماتے رہے نیز یہ ارار بھی لیتے رہے کہ اگر تم میں سے کوئی آپ کا زمانہ پائے تو آپ کی اطاعت اختیار کرے۔ ۔ چناچہ وہ سب کہیں گے کہ اے اللہ ہم ان سے برات کا اظہار کرتے ہیں یعنی ہمیں ان کا شریک جرم نہ بنایا جائے کہ یہ ہماری پرستش نہ کرتے تھے بلکہ اپنی خواہش نفس کے غلام تھے۔ پھر انہیں حکم ہوگا کہ پکارو اپنے معبودان باطلہ کو اور پکاریں گے مگر انہیں کوئی جواب تک نہ ملے گا اور جہنم کا (علیہ السلام) ذاب سامنے دیکھ رہے ہوں گے کیا ہی اچھا ہوتا کہ انہوں نے ہدایت قبول کرلی ہوتی۔ پھر اعلان کیا جائے گا کہ اب سوچو کہ تم نے اللہ کے فرستادہ نبیوں اور رسولوں کو کی اجواب دیا تھا لیکن عذاب ان کی یادداشتیں تک کھو دے گا آپس میں بھی ایک دوسرے سے پوچھ پاچھ نہ سکیں گے ہاں مگر جو اب توبہ کرلے ۔ توبہ کیا ہے : اور توبہ یہ ہے کہ عقائد درست کرے اور عقائد کے مطابق نیک اعمال بجا لائے سو ایسے لوگوں کے کامیاب ہونے کی امید کی جاتی ہے۔ تیرا پروردگار جس چیز کو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور اپنی مخلوق سے جسے چاہے پسند کرلے یہ پسند و ناپسند ان کے اختیار میں نہیں بلکہ ان کے مشرکانہ عقائد سے اللہ کریم بہت بلند ہے اور اس نے فیصلہ کردیا کہ جس کے دل میں جتنی انابت اور جس قدر خلوص ہوگا اللہ اسے اتنا پسند فرمائے گا۔ فضیلت کا معیار : علما کے نذدیک معیار فضیلت دو چیزیں ہیں ایک اختیاری اور ایک غیر اختیاری۔ غیر اختیاری یہ ہے کہ زمانوں پہ ایک خاص زمانے کو یا زمین پر ایک خاص جگہ کو جیسے بیت اللہ شریف یا دنوں پر جمعہ کے روز کو رمضان کو مہینوں پر یا لیلۃ القدر کو راتوں پر اور دوسری اختیاری جیسے انبیاء کے علاوہ انسانوں کو ان کے خلوص اور کردار پر یا جس جگہ نیک کام کے لیے جائیں ان کے باعث اس جگہ کو دوسرے مقامات پر ایسے ہی عالم کو پھر تابعی اور پھر صحابہ کو اور ان میں بااتفاق علماء حق سب میں خلفائے راشدین کو اور ان سب پر ابوبکر صدیق ؓ کو پھر حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کو۔ یہخیال کرو کہ اگر تم لوگوں پہ ہمیشہ کے لیے رات ہی طاری کردی جاتی تو کتنی نعمتوں سے تمہاری حیات محروم ہوجاتی۔ بھلا کسی میں ہمت ہے کہ رب جلیل کے علاوہ تمہیں روشنی مہیا کرتا اور دن پیدا کردیتا پھر تمہیں کیا ایسی باتیں سنائی ہی نہیں دیتیں اور اگر اللہ ہمیشہ کے لیے دن کردیتے سورج کبھی غروب ہی نہ ہوتا قیامت تک دن ہی دن چلا جاتا تو کوئی ایسا معبود اللہ کے بغیر تھا جو تمہیں رات کے آرام مہیا کرتا اور رات کا سکون واپس لا دیتا۔ کیا یہ حقائق تمہاری نظر میں نہیں آتے ۔ یہ تو اس کا کرم ہے کہ کاروبار حیات کے لیے دن بخشا اور سکون و آرام کے لیے رات عطا فرما دی اور اتنے انعامات اس لیے بخشے کہ تم اس کا شکر ادا کرو۔ رسومات کو دین سمجھا جائے تو آسمانی آفات کے آنے کا باعث بنتا ہے : محرومی تو اپنی جگہ دنیا میں بھی ان پر آسمانی بلائیں ٹوٹ پڑیں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ آپ کا اتباع چھوڑ کر اگر رسومات اور بدعات کو باعث ثوابت جان کر ان پر عمل کیا جائے تو عذابوں کا نزول ہوتا ہے جیسے فصلوں کی تباہی قحط سالی مختلف امراض زلزلے وغیرہ موجودہ دنیا میں سائنس کی بےپناہ ترقی اور بچاؤ کے جدید انتظامات کے باوجود طرح طرح کے عذاب بیماری جنگ اور آفات سماوی کی صورت میں دنیا پہ مسلط ہیں۔ آج بھی اگر کوئی پناہ کا طالب ہو تو اتباع رسالت کا دروازہ کھلا ہے قوم اختیار کرے تو قوم فلاح پائے گی کوئی فرد اپنا لے تو وہ فرد کامیاب رہے گا۔
Top