Asrar-ut-Tanzil - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والے اِذَا : جب لَقِيْتُمْ : تمہارا آمنا سامنا ہو فِئَةً : کوئی جماعت فَاثْبُتُوْا : تو ثابت قدم رہو وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کا ذکر کثرت سے (بہت زیادہ) کرو تاکہ تم کامیاب رہو
آیات 45 تا 48 اسرار و معارف جنگ اور جہاد اسلام نے جنگ کو بھی جہاد میں بدل دیا اور ایک بالکل نیا فلسفہ عطا فرمایا جنگ تو اقوام عالم میں پہلے سے عام تھی اسلام نے اس میں ایک بہت بڑی تبدیلی یہ کردی کہ جنگ میں مخالف کو تباہ کرنا اس کی طاقت کو ختم کرنا اور اسے ذلیل ورسوا کرنا لوٹ مار آگ لگا دنیا وغیرہ سب امور ہوتے تھے ۔ اسلام نے جہاد کا لفظ دیا جو جہد یعنی کوشش اور محنت سے بنا ہے اور جہاد سے مرادمخالف کی اصلاح اور اس کی بھی بہتری چاہتا ہے ۔ اسی لیے آپ اسلامی افواج کو دی گئی ہدایات کا مطالعہ کریں تو یہ ملے گا کہ کسی نہتے آدمی پر تلوارنہ اٹھائی جائے فصل خراب نہ کئے جائیں درخت نہ کاٹے جائیں عبادت خانوں اور عابدوں کو نہ چھیڑاجائے ۔ مخالف اسلام قبول کرلے تو تمام اسلامی حقوق فورا دیئے جائیں یا اللہ کی عظمت قبول کرکے جزیہ اداکرے تو اپنے ہذہب پر امن سے رہ سکتا ہے یعنی محض کسی قوم ملک یافرد کو نیچادکھانایا اس کا ماں اور ملک چھین لینا تو جنگ تھی اور اسی کی بہتری کے لیے یا اس کے شر سے اللہ کے بندوں اور اس کے دین کو بچانے کے لیے ضروری حدتک تلوار چلانا جہاد کہ لایا وریہ ایک عظیم عبادت قرار پایا ۔ نیز یہ ایسی ضرورت ہے کہ جس کے بارے یہ کہنا کہ اب جہاد منسوخ ہوگیا خود جہاد سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔ یہاں جہاد کے قواعد ارشاد ہو رہے ہیں کہ اگر کسی جماعت سے مقابلہ آجائے بغیرلڑائی کے کوئی چارہ نہ ہو تو میدان میں اترنے کے بعد جم جاؤاور ثابت قدم رہو۔ یہ وہ بات ہے جو ہر قوم اپنے جنگی دستوں سے کہتی ہے اور اس کی امید بھی رکھتی ہے کہ یہی صل قوت ہے ، اسلحہ اور ہتھیار تو بعد میں آتے ہیں ۔ ثبات قدم کا ذریعہ مگر اس کا سب ہر قوم گرما گرم تقریروں ، اسلحہ اور افرادی قوت قومی تفاخر وغیرہ کو بناتی ہے جبکہ کہ قرآن حکیم نے اس کے لیے کثرت ذکر کا حکم دیا ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ ذکر سے مراد ہر وہ کام ہے جو شریعت کے مطابق کیا جائے یہ عملی ذکر ہے۔ زبان سے حق کی دعوت حق پر ثابت قدم رہنے کی تلقین اور نعرہ ہائے تکبر جو میدان جنگ کا حصہ ہیں یہ ذکر لسانی ہے اور یہ سب کچھ تو ہر حال ہوتا ہے ۔ تمام ظاہری اعمال میں میدان جہاد میں جان کا نذرانہ لے کے صف آرا ہونابہترین عمل ہے اور جہاد کی تلقین جو ش وجذہ کی تائید اور صفوں ترتیب کے احکام بہترین ذکر لسانی ہے پھر اس کے ساتھ کثرت ذ کرلے لیے قلبی طور ثابت رہنے کا بہترین سبب ہے جب دل ثابت ہوگا نوقدم بھی ثابت رہ سکیں اور دوسری طرف حصول فلاح یعنی کامیابی تک پہنچنے کا زینہ بھی ہے لہذا اس کی کثرت کا حکم دیا گیا ۔ ذکرقلبی عمل کی بنیاد فراہم کرتا ہے دراصل قلبی ذکرہی خالص عمل کی بنیاد فراہم کرتا ہے اور ذاکرین میں دوسروں کی نسبت کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے مگر افسوس کہ مسلمانوں نے یا تو ذکر قلبی کھودیا اور اسے چھوڑبیٹھے یا نام نہاد صوفیوں اور فعلی پیروں سے اس نام پر لٹتے اور وقت اور قوت کو ضائع کرتے رہے کم خوش نصیب ہونگے جنہیں یہ نعمت اصل صورت میں نصیب ہوئی ۔ اللہ کریم اسے مسلمانوں میں پھر سے عام کرے ۔ اٰمین ۔ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے رہو کہ جہاد ہو یا عبادت ذکر ہو یا مجاہدہ سب کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی توفیق اور اطاقت نصیب ہو لہٰذاہر وہ محنت ہر وہ کام اور ہر وہ جہاد نیز ہر وہ ذکر بھی درست نہ رہے گا ۔ جو اطاعت کے دائرے سے باہر لے جاتے کہ مقصد اطاعت الٰہی کے درجہ کمال کو حاصل کرنا ہے جو اطاعت رسول پر مخصر ہے ۔ لہٰذ اجنگ کا مقصد اور ہوتا اور جہاد کا اور یعنی کمال اطاعت کا حصول نیز جھگڑانہ کرو اس سے مراد ہے کہ جہاں مختلف افراد جمع ہوں گے۔ اختلاف رائے یقینا مختلف آراء بھی ہوں گی مگر اپنی رائے کو دوسرے پر ٹھونسنے کی کوشش نہ کرو کہ یہ جھگڑا ہے یعنی اختلاف رائے تو ہوسکتا ہے ۔ مگر رائے دینے کے بعد جو فیصلہ یا حکم امیردے اس کی تعمیل ہو نہ کہ پنی رائے مسلط کرنے کے لیے جھگڑاشروع کردیا جائے کہ جھگڑے سے تو تم لوگ بکھر جاؤگے جب آپس میں اعتماد نہ رہے تو کمزوری پیدا ہوگی اور رعب ودبدبہ جاتا رہے گا کفار بھی تمہاری آپس کی حالت سن کردلیرہوجائیں گے لہٰذا اگر کوئی رائے یا بات خلاف مزاج ہو یا کوئی واقعہ خلاف مزاج ہو ہے کہ صبر کرنے والے کو اللہ کی ذاتی معیت نصیب ہوتی ہے ظاہر ہے کہ جس کے ساتھ اللہ ہوگا وہ ہر حال میں کامیاب ہے ۔ اور نیت و ارادہ کو اللہ لے لیے خا (رح) (رح) لص اور کھرارکھو کہ قریش مکہ جیسا ناپسند دیدہ رویہ کبھی نہ اپناؤکہ جو محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اور دینی لڑائی ثابت کرنے کیلئے میدان میں اتراتے ہوئے کود پڑے حالانکہ ویسے بھی وہ بہت ظلم کرتے تھے اور اللہ کے دین کا راستہ رولنے کی بھرپور سعی کرنے والے تھے ۔ مکہ سے تو اطلاع پاکر نکلے مگر جب قافلہ بچ کہ نکل گیا اور انہیں اس کی خبر بھی ہوگئی تو اب جنگ میں کود نادانشمندی ۔ تھی بلکہ قریشی سرداروں نے بھی مشورہ کیا کہ اب جنگ کی ضرورت نہیں مگر ابوجہل اس پر اڑگیا اور اس نے کہا یہ جنگ ضرور ہوگی اس کا خیال تھا کہ اللہ والوں کا خاتمہ کردیں گے مگر ع وہ جو کچھ بھی کرتے اللہ کی قدرت سب پر غالب تھی اور اس کی قدرت کا ملہ ہر حال میں میط ہے ۔ شیطان کے حیکے اس کے بعد شیطانی چالوں کا ذکر فرمایا کہ جب ریاء اور تکبر آجائے تو ایسا آدمی خلاف حق کے لیے کوشش کرتا ہے اور اس پر شیطان ایسے حیلے کرتا ہے کہ اسے برائی بھی بھلی لگتی ہے اور اپنی نیکیوں میں شمار کرتا ہے جیسے اہل مکہ آپ اور اللہ کے دین کا راستہ روکنا ہی نیکی سمجھ رہے تھے حتی کہ بیت اللہ شریف سے دعا کرکے نکلے کہ اے اللہ جو جماعت حق پر ہے اسے فتح عطا کر دوسرے یہ کہ ابلیس نہ صرف کشف میں دھوکا دیتا ہے بلکہ انسانی صورت بن کر بھی فریب کرتا ہے جیسے قریش قافلے کی فریاد پر نکل تو پڑے جب قافلہ بچ جانے کا پتہ چلاتو انہیں واپسی کی فکر بھی تھی کہ بنوبکرجو دشمن قبیلہ تھا وہ مکہ پر حملہ نہ کردے مگر عین میدان میں دیکھا کہ نبوبکرکا سردار سراقہ بن مالک جوانوں کا وستہ ساتھ لیے میدان جنگ میں قریش کی مدد کو آراہا ہے اور اس نے آتے ہی کہا کہ آپس کی ناراضگی الگ بات ہے ۔ پڑوسی بھائی ہیں اور اس مذہبی جنگ میں تو آپ کا پورا پورا ساتھ دوں گا نیز مجھے مسلمانوں کی طاقت کا بھی پتہ ہے بھلا وہ تمہارے سامنے کیا ٹھہرسکیں گے اور اس طرح انہیں جنگ میں دھکیل دی امگر عین میدان جنگ میں جب انوارات و تجلیات کی بارش میں فرشتوں کے پرے اترتے دیکھے تو بھاگا تو قریش نے پکارا کہ ابھی ساتھ دینے کا عہد کر رہے تھے ابھی بھاگ رہے ہو تو کہنے لگا میں اس عہد سے بری ہوتا ہوں اس لیے کہ جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تمہیں نظر نہیں آرہا یعنی خدام رسالت کی مدد کو جو فرشتوں کے لشکر اتر رہے ہیں وہ تمہیں ظاہری آنکھوں دکھائی نہیں دے رہے اور میں اللہ کے عذاب اور اس کی گرفت سے ڈرکر بھاگ رہا ہوں جس کی صورت سامنے ہے اور جو بہت سخت ہوتے ہیں کہ اللہ کا عذاب تباہ کردینے والا ہوتا ہے چناچہ وہ بھاگ گیا اور قریش آخرتک سراقہ ہی سمجھاکئے حتی کہ بعد میں کسی موقع پر انہوں نے سراقہ بن مالک سے شکوہ بھی کیا کہ اتنے عظیم سردارہوکرہ میں دھوکا دی اور ہمارے جو انوں کی ہمت تو ڑدی ہماری شکست کے ذمہ دارتم ہو تو اس نے کہا میں تو کبھی ادھرگیا ہی نہیں بلکہ جنگ اور تمہاری شکست کا پتہ بھی تب چلاجب تم واپس مکہ پہنچ چکے تھے ۔
Top