Tafseer-e-Baghwi - Hud : 3
وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ١ؕ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ كَبِیْرٍ
وَّاَنِ : اور یہ کہ اسْتَغْفِرُوْا : مغفرت طلب کرو رَبَّكُمْ : اپنا رب ثُمَّ : پھر تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ : اس کی طرف رجوع کرو يُمَتِّعْكُمْ : وہ فائدہ پہنچائے گا تمہیں مَّتَاعًا : متاع حَسَنًا : اچھی اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : وقت مُّسَمًّى : مقرر وَّيُؤْتِ : اور دے گا كُلَّ : ہر ذِيْ فَضْلٍ : فضل والا فَضْلَهٗ : اپنا فضل وَاِنْ : اور اگر تم تَوَلَّوْا : پھر جاؤ فَاِنِّىْٓ : تو بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ : ایک دن كَبِيْرٍ : بڑا
اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو۔ وہ تم کو ایک وقت مقرر تک متاع نیک سے بہرہ مند کرے گا اور صاحب بزرگی کو اس کی بزرگی (کی داد) دے گا اور اگر روگردانی کرو گے تو مجھے تمہارے بارے میں (قیامت کے) بڑے دن کے عذاب سے ڈر ہے۔
۔ ” وان “ پہلے ان پر عطف ہے ۔ ” استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ “ یعنی اسی کی طرف لوٹو طاعت کے ساتھ ، فراء (رح) فرماتے ہیں کہ ” ثم “ یہاں وائو کے معنی میں ہے۔ یعنی ” وتویوالیہ “ اس لیے کہ استغفار توبہ کرنا ہے اور توبہ کرنا استغفار ہے۔ ” یمتعکم متا عا ً حسنا “ تم کو اچھی زندگی دے گا جس میں امن و کشادگی ہوگی اور بعض نے کہا ہے کہ اچھی زندگی تھوڑے پر راضی ہونا اور تقدیر الٰہی پر صبر کرنا ہے۔ ” الی اجل مسمی “ کیونکہ ہر شخص کی مدت زندگی مقرر ہے۔ ” ویوت کل ذی فصل فضلہ “ یعنی دنیا میں ہر نیک عمل کرنے والے کو آخرت میں اس کا اجر وثواب دے گا ، ابو العالیہ (رح) فرماتے ہیں کہ دنیا میں جس کی عبادت زیادہ ہوگی آخرت کے دن جنت میں اس کے درجات زیادہ ہوں گے۔ اس لیے کہ درجات اعمال کی وجہ سے ملیں گے ، ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر زیادہ ہوں گی ، جنت میں داخل ہوگا اور جس کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی وہ اعراف میں رہے گا ، بعد میں جنت میں داخل ہوگا ، بعض نے مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جو اللہ کے لیے عمل کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ مستقبل میں بھی اس کو عبادت کرنے کی توفیق دیں گے۔ ” وان تولوا فانی اخاف علیکم عذاب یوم کبیر “ اور وہ قیامت کا دن ہے۔
Top