Tafseer-e-Baghwi - Hud : 46
قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَ١ۚ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ١ۖ٘ۗ فَلَا تَسْئَلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنِّیْۤ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا يٰنُوْحُ : اے نوح اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيْسَ : نہیں مِنْ : سے اَهْلِكَ : تیرے گھر والے اِنَّهٗ : بیشک وہ عَمَلٌ : عمل غَيْرُ صَالِحٍ : ناشائستہ فَلَا تَسْئَلْنِ : سو مجھ سے سوال نہ کر مَا لَيْسَ : ایسی بات کہ نہیں لَكَ : تجھ کو بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنِّىْٓ اَعِظُكَ : بیشک میں نصیحت کرتا ہوں تجھے اَنْ : کہ تَكُوْنَ : تو ہوجائے مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : نادان (جمع)
خدا نے فرمایا کہ نوح وہ تیرے گھر والوں میں نہیں ہے۔ وہ تو ناشائستہ افعال ہے۔ تو جس چیز کی تم کو حقیقت معلوم نہیں اس کے بارے میں مجھ سے سوال ہی نہ کرو۔ اور میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ نادان نہ بنو۔
46۔” قال “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” یا نوح انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح “ کسائی اور یعقوب نے ( عمل) میم کے کسرہ اور لام کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ غیر منصوب فعل کی وجہ سے دوسرے قراء نے میم کے فتحہ اور لام کے پیش کے ساتھ پڑھا ہے اور غیر کو بھی مرفوع پڑھا ہے۔ یعنی تمہارا مجھ سے نجات کے متعلق سوال کرنا یہ عمل غیر صالح ہے۔” فلا تسالن “ اے نوح ” ما لیس لک بہ علم “ اہل حجاز اور اہل شام نے ” فلا تسالنی “ لام کے زبر اور نون کے شد کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ حضرات ابن کثیر کے علاوہ نون کو زیر دیتے ہیں۔ ابن کثیر نون کو زبر دیتے ہیں اور دیگر حضرات نے لام کے جزم اور نون کی زبر اور تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور ابو جعفر ، ابو عمر و اور ورش نے یاء کو وصل کی صورت میں باقی رکھا ہے نہ کہ وقف کی صورت میں اور یعقوب (رح) نے اس کو دونوں حالتوں میں ثابت رکھا ہے۔ ” انی اعظک ان تکون من الجاھلین “ ابن کی تعیین میں اختلاف ہے۔ مجاہد اور حسن رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لڑکا نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں پیدا نہیں ہوا تھا اور نہ ہی نوح (علیہ السلام) کو اس کا علم تھا اس لیے فرمایا ’ ’ ما لیس لک بہ علم “ اور حسن نے دلیل میں آیت ” فخانتا ھما “ پڑھی ہے۔ ابو جعفر باقر (رح) فرماتے ہیں کہ یہ نوح (علیہ السلام) کی بیوی کا بیٹا تھا اور نوح (علیہ السلام) کو اس کا علم تھا اس لیے ” من اھلی “ کہا ہے ” منی ‘ نہیں کہا اور ابن عباس ؓ ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، ضحاک اور اکثر مفسرین رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ یہ نوح (علیہ السلام) کا بیٹا تھا ان کی اپنی پشت سے اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ کے قول ” لیس من اھلک “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین والوں میں سے نہیں ہے اور ” فخانتا ھما “ کا مطلب یہ ہے کہ دین اور عمل میں خیانت کی نہ کہ بستر میں ۔ ” انی اعظک ان تکون من الجاھلین “ یعنی پہلے کفار کی ہلاکت کی دعا کی پھر کافر کی نجات کا سوال کر رہے ہیں۔
Top