Maarif-ul-Quran - Hud : 46
قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَ١ۚ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ١ۖ٘ۗ فَلَا تَسْئَلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنِّیْۤ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا يٰنُوْحُ : اے نوح اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيْسَ : نہیں مِنْ : سے اَهْلِكَ : تیرے گھر والے اِنَّهٗ : بیشک وہ عَمَلٌ : عمل غَيْرُ صَالِحٍ : ناشائستہ فَلَا تَسْئَلْنِ : سو مجھ سے سوال نہ کر مَا لَيْسَ : ایسی بات کہ نہیں لَكَ : تجھ کو بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنِّىْٓ اَعِظُكَ : بیشک میں نصیحت کرتا ہوں تجھے اَنْ : کہ تَكُوْنَ : تو ہوجائے مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : نادان (جمع)
فرمایا اے نوح وہ نہیں تیرے گھر والوں میں اس کے کام ہیں خراب سو مت پوچھ مجھ سے جو تجھ کو معلوم نہیں، میں نصیحت کرتا ہوں تجھ کو کہ نہ ہوجائے تو جاہلوں میں
دوسری آیت میں حق تعالیٰ کی طرف سے اس کے جواب میں حضرت نوح ؑ کو تنبیہ کی گئی کہ یہ لڑکا آپ کو نہیں چاہئے کہ اس حقیقت حال سے بیخبر رہ کر مجھ سے کوئی سوال کریں ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ نادانوں میں داخل نہ ہوجاؤ۔
حق تعالیٰ کے اس ارشاد سے دو باتیں معلوم ہوئیں، اول یہ کہ حضرت نوح ؑ کو اس بیٹے کے کفر کا پورا حال معلوم نہ تھا اس کے نفاق کی وجہ سے وہ اس کو مسلمان ہی جانتے تھے، اسی لئے اس کو اپنے اہل کا ایک فرد قرار دے کر طوفان سے بچانے کی دعا کر بیٹھے ورنہ اگر ان کو حقیقت حال معلوم ہوتی تو ایسی دعا نہ کرتے، کیونکہ ان کو صریح طور پر پہلے ہی یہ ہدایت دے دی گئی تھی کہ جب طوفان آجائے تو پھر آپ ان سرکشوں میں سے کسی کے متعلق کوئی سفارش کی گفتگو نہ فرمائیں، جیسا کہ پچھلی آیات میں گزر چکا ہے، (آیت) وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ ، اس صاف وصریح حکم کے بعد ناممکن تھا کہ پیغمبر خدا اس کی خلاف ورزی کی جرأت کرتے، بجز اس احتمال کے جس کو اوپر خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے کہ اس دعا کا حاصل اس بیٹے کے مومن ہوجانے کی دعا ہے یہ نہیں کہ اس کے موجودہ حال میں اس کو طوفان سے بچایا جائے لیکن حضرت نوح ؑ کی اس کے کفر سے لا علمی اور اس کی بناء پر دعا نجات کو بھی حق تعالیٰ نے عذر صحیح قرار نہیں دیا اور اسی لئے تنبیہ کی گئی کہ بغیر علم کے ایسی دعا کیوں کی، اور یہ پیغمبرانہ شان کی ایک ایسی لغزش ہے جس کو حضرت نوح ؑ اس وقت بھی اپنے عذر میں پیش کریں گے جب محشر میں پوری مخلوق خدا آپ سے شفاعت کرنے کی درخواست کرے گی تو وہ فرمائیں گے کہ مجھ سے ایسی لغزش ہوچکی ہے اس لئے میں شفاعت کی جرأت نہیں کرسکتا۔
کافر اور ظالم کے لئے دعا جائز نہیں
اس سے ایک مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ دعا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ دعا کرنے والا پہلے یہ معلوم کرلے کہ جس کام کی دعا کر رہا ہے وہ جائز و حلال ہے یا نہیں، مشتبہ حالت میں دعا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، تفسیر روح المعانی میں بحوالہ قاضی بیضاوی نقل کیا ہے کہ جب اس آیت سے مشتبہ الحال کے لئے دعا کرنے کی ممانعت معلوم ہوئی تو جس معاملہ کا ناجائز و حرام ہونا معلوم ہو اس کے لئے دعا کا ناجائز ہونا بدرجہ اولی ثابت ہوگیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ آجکل کے مشائخ میں جو یہ عام رواج ہوگیا ہے کہ جو شخص کسی دعا کے لئے آیا اس کے واسطے ہاتھ اٹھا دیئے اور دعا کردی حالانکہ اکثر ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس مقدمہ کے لئے یہ دعا کرا رہا ہے اس میں یہ خود ناحق پر ہے یا ظالم ہے، یا کسی ایسے مقصد کے لئے دعا کرا رہا ہے جو اس کے لئے حلال نہیں، کوئی ایسی ملازمت اور منصب ہے جس میں یہ حرام میں مبتلا ہوگا یا کسی کی حق تلفی کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے گا۔
ایسی دعائیں حالت معلوم ہونے کی صورت میں تو حرام و ناجائز ہیں ہی اگر حالت اشتباہ کی حالت بھی ہو تو حقیقت حال اور معاملہ کے جائز ہونے کا علم حاصل کئے بغیر دعا کیلئے اقدام کرنا بھی مناسب نہیں۔
مؤ من و کافر میں رشتہ اخوت نہیں ہوسکتا وطنی یا نسبی بنیاد پر قومیت کی تعمیر اصول اسلام سے بغاوت ہے
دوسرا مسئلہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مومن اور کافر کے درمیان اگرچہ رشتہ قرابت کا ہو، مگر دینی اور اجتماعی معاملات میں اس رشتہ داری کا کوئی اثر نہیں ہوگا، کوئی شخص کتنا ہی عالی نسب ہو، کتنے ہی بڑے بزرگ کی اولاد ہو یہاں تک کہ سید الانبیاء ﷺ کی اولاد میں داخل ہونے کا شرف رکھتا ہو، اگر وہ مومن نہیں ہے تو دینی معاملات میں اس کے اس نسب عالی اور قرابت نبوی کا بھی کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا، تمام دینی معاملات میں تو مدار کار ایمان اور صلاح وتقوی پر ہے، جو صالح و متقی ہے وہ اپنا ہے جو ایسا نہیں وہ بیگانہ ہے،
ہزار خویشی کہ بیگانہ از خدا باشد فدائے یک تن بیگانہ کاشنا باشد
اگر دینی معاملات میں بھی ان رشتہ داریوں کی رعایت ہوتی تو بدر و احد کے میدانوں میں بھائی کی تلوار بھائی پر نہ چلتی، بدر و احد اور احزاب کے معرکے تو سب کے سب ایک ہی خاندانوں کے افراد کے درمیان پیش آئے ہیں، جس نے واضح کردیا کہ اسلامی قومیت اور برادری نسبی تعلقات یا وطنی اور لسانی وحدتوں پر دائر نہیں ہوتی بلکہ ایمان و عمل پر دائر ہے، ایمان والے خواہ کسی ملک کے باشندے اور کسی خاندان کے افراد اور کوئی زبان بولنے والے ہوں سب ایک قوم اور ایک برادری ہیں (آیت) انما المومنون اخوۃ کا یہی مطلب ہے، اور جو ایمان و عمل صالح سے محروم ہیں وہ اسلامی برادری کے فرد نہیں، قرآن کریم نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی زبانی اس حقیقت کو بہت واضح الفاظ میں بیان کردیا ہے (آیت) اِنَّا بُرَءٰۗؤ ُ ا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ، یعنی ہم تم سے بھی بری ہیں اور تمہارے معبودوں سے بھی۔
اس مسئلہ میں احقر نے دینی معاملات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ دنیوی معاملات میں حسن معاشرت، حسن اخلاق اور احسان و کرم کا سلوک کرنا الگ چیز ہے وہ غیر صالح سے بھی جائز بلکہ مستحسن اور ثواب ہے، رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام کا تعامل اور غیر مسلموں کے ساتھ احسان و سلوک کے بیشمار واقعات اس پر شاہد ہیں۔
آج کل جو وطنی اور لسانی یا لونی بنیادوں پر قومیت کی تعمیر کی جاتی ہے، عرب برادری ایک قوم، ہندی، سندھی دوسری قوم قرار دی جاتی ہے، یہ قرآن و سنت کے خلاف اور رسول کریم اللہ ﷺ کے اصول سیاست سے بغاوت کے مرادف ہے۔
Top