Tafseer-e-Baghwi - Ibrahim : 22
وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ١ؕ وَ مَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ١ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَ لُوْمُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ مَاۤ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ١ؕ اِنِّیْ كَفَرْتُ بِمَاۤ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ١ؕ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَقَالَ : اور بولا الشَّيْطٰنُ : شیطان لَمَّا : جب قُضِيَ : فیصلہ ہوگیا الْاَمْرُ : امر اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَعَدَكُمْ : وعدہ کیا تم سے وَعْدَ الْحَقِّ : سچا وعدہ وَ : اور وَعَدْتُّكُمْ : میں نے وعدہ کیا تم سے فَاَخْلَفْتُكُمْ : پھر میں نے اس کے خلاف کیا تم سے وَمَا : اور نہ كَانَ : تھا لِيَ : میرا عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ سُلْطٰنٍ : کوئی زور اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ دَعَوْتُكُمْ : میں نے بلایا تمہیں فَاسْتَجَبْتُمْ : پس تم نے کہا مان لیا لِيْ : میرا فَلَا تَلُوْمُوْنِيْ : لہٰذا نہ لگاؤ الزام مجھ پر تم وَلُوْمُوْٓا : اور تم الزام لگاؤ اَنْفُسَكُمْ : اپنے اوپر مَآ اَنَا : نہیں میں بِمُصْرِخِكُمْ : فریاد رسی کرسکتا تمہاری وَمَآ : اور نہ اَنْتُمْ : تم بِمُصْرِخِيَّ : فریادرسی کرسکتے ہو میری اِنِّىْ كَفَرْتُ : بیشک میں انکار کرتا ہوں بِمَآ : اس سے جو اَشْرَكْتُمُوْنِ : تم نے شریک بنایا مجھے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل اِنَّ : بیشک الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ اَلِيْمٌ : دردناک عذاب
جب (حساب کتاب کا) کام فیصل ہوچکے گا تو شیطان کہے گا (جو) وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا (وہ تو) سچا (تھا) اور (جو) وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔ اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا۔ ہاں میں نے تم کو (گمراہی اور باطل کی طرف) بلایا تو تم نے (جلدی سے اور بےدلیل) میرا کہنا مان لیا۔ (آج) مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرسکتے ہو۔ میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے۔ بیشک جو ظالم ہیں ان کے لئے درد دینے والا عذاب ہے۔
وقال الشیطان لما قضی الامر کی تفسیر تفسیر 22۔” وقال الشیطان لما قضی الامر ان اللہ وعد کم وعد الحق “ جب وہ شیطان کی بات سن لیں گے تو اپنے آپ سے نفرت ہوجائے گی ، اس پر ان کو آواز دی جائے گی جتنی نفرت آج تم کو اپنے آپ سے ہو رہی ہے، اس سے زیادہ نفرت اللہ کو تم سے اس وقت بھی جب تم کو ایمان کی دعوت دی جا رہی تھی اور تم انکار کر رہے تھے ، یہ سن کر وہ پکار اٹھیں گے اے نفرت اللہ کو تم سے اس وقت تھی جب تم کو ایمان کی دعوت دی جا رہی تھی اور تم انکار کررہے تھے ، یہ سن کر وہ پکار اٹھیں گے اے نفرت اللہ کو تم سے اس وقت تھی جب تم کو ایمان کی دعوت دی جا رہی تھی اور تم انکار کررہے تھے ، یہ سن کر وہ پکار اٹھیں گے اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو پھر لوٹا دے ہم اچھے عمل کریں گے ہم کو یقین آگیا ، اللہ تعالیٰ ان کی تردید میں فرمائے گا ۔ ” ولا شئنا لا تینا کل نفس ھداھا “ پھر وہ تیسری بار پکاریں گے، اے ہمارے رب ! ہم تیری دعوت قبول کریں گے اور پیغمبروں کا بھی اتباع کریں گے تو ہم کو تھوڑی مدت کیلئے مہلت دے دے ، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا ” اولم تکونوا اقسمتم من قبل مالکم من زوال “ کیا تم نے اس سے پہلے قسم کھا کر نہیں کہا تھا کہ ہم کو فنا نہیں ۔ پھر وہ چوتھی مرتبہ پکاریں گے۔ اے ہمارے ! تو ہمیں یہاں سے نکال دے ، ہم جو کچھ پہلے کرچکے ان کے سوا دوسرے عمل کریں گے۔ پھر ان کو جواب دیا جائے گا ۔” الم تکن آیاتی تتلی علیکم فکنتم بھا تکذبون “ کہ کیا ہم نے تم کو ایسی اور اتنی زندگی نہیں دی تھی کہ اس میں جو نصیحت پکڑنے والا تھا نصیحت پکڑ لیتا اور کیا تمہارے پاس ڈرانے والا نہیں پہنچا تھا ۔ پھر ایک مدت تک ٹھہرنے کے بعد اللہ ان سے فرمائے گا اس میں ذلت کے ساتھ رہو، مجھ سے بات بھی نہ کرو ، اس وقت وہ بالکل مایوس ہوں گے اور دعا کا سلسلہ ختم ہوجائے گا اور باہم نوحہ کریں گے اور دوزخ کا دروازہ بند کردیا جائے گا ۔” وقال الشیطان “ اس سے ابلیس مراد ہے۔ ” لما قصی الامر “ جب وہ فیصلے سے فارغ ہوجائے گا جتنی جنت میں دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے ۔ مقاتل (رح) کا بیان ہے کہ دوزخ میں شیطان کے لیے منبر بنایا جائے گا ، تمام کفار اپنے اپنے سرداروں کے ساتھ اس کے آس پاس جمع ہوں گے اور یہ ان سے کہے گا ۔” ان اللہ وعد کم وعد الحق “ بیشک اللہ نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا وہ سچا تھا۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا ۔ ( ووعدتکم فاخلفتکم) ( بس میں نے تم سے وعدہ کیا تھا اب اس سے وعدہ کے ساتھ خلاف ورزی کی) اور پھر کہا جائے گا کہ شیطان ان سے کہے گا کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ نہ کوئی جنت ہے اور نہ ہی دوزخ ( وما کان لی علیکم من سلطن اور نہ کوئی اس پر میرے پاس دلیل تھی) اور بعض نے کہا کہ اس وقت وہ لوگ شیطان سے کہیں گے کہ تم نے اپنے دعوے کے مطابق کوئی دلیل کیوں نہ دی ۔ ( الا ان دعوتکم ) شیطان کہے گا کہ میں نے تو صرف تمہیں دعوت دی تھی یہ مستثنیٰ منقطع ہے۔ ( فاستجبتم لی فلا تلو مونی ولو موا انفسکم) اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا ، لہٰذا اب تم مجھ پر ملامت نہ منقطع ہے ( فاستجبتم لی فلا تلومونی ولو موا انفسکم) اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا ۔ لہٰذا اب تم مجھ پر ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو کیونکہ تم نے میری دعوت کو اور میری پیروی کو بغیر کسی دلیل اور حجت کے اختیار کیا ۔ ” ما انا بمصرخکم “ میں تمہاری داد رسی نہیں کرسکتا ۔ ” وما انتم بمصرخی “ اور نہ ہی تم میری مدد کو پہنچ گے۔ حمزہ اور اعمش نے ” بمصرخی “ یاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسرے حضرات نے نصب کے ساتھ پڑھا ہے جن کے نزدیک کسرہ ہے وہ کہتے ہیں کہ التفاء ساکنین کی وجہ سے یاء کو کسرہ دیا کیونکہ یاء کسرہ کو چاہتی ہے ۔ نحویین کے نزدیک یہ جائز نہیں اور بعض نے کہا کہ یہ لغت بنی یر بوع کے نزدیک ہے ۔ یہ اصل میں ” بمصرخینی “ نو ن اضافت کا وجہ سے گرگیا ، پھر دو یائوں میں التفاء ساکنین آیا یاء کو یاء میں مدعم کردیا۔ ” انی کفرت بما اشرکتمونی من قبل “ آج سے پہلے دنیا میں جو تم مجھ کو اللہ کے ساتھ عبادت وطاعت میں شریک کرتے تھے آج اس شرک کا میں انکار کرتا ہوں اور تم سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں ۔ ” ان الظالمین “ مراد کافر ہیں ۔ ” لھم عذاب الیم “ امت مسلمہ کی شفاعت نبی کریم ﷺ کریں گے اور کافروں کا سفارشی شیطان ہو گا حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے حدیث شفاعت کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب لوگ سفارش کرواتے کرواتے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچیں گے تو آپ کہیں گے کہ میں تم کو پتہ بتاتا ہوں تم نبی امی کے پاس جائو وہ سب سے زیادہ صاحب فضلیت والے ہیں ۔ آخر لوگ میرے پاس آئیں گے اور اللہ مجھے کھڑے ہو کر گزارش کرنے کی اجازت دے گا ۔ پھر میری مجلس ایک بےمثال پاکیزہ ترین خوشبو سے مہکا دی جائے گی ۔ ایسی مہک ہوگی کہ کسی نے ایسی خوشبو نہیں سونگھی ، پھر میں اپنے رب کے سامنے حاضر ہو کر شفاعت کروں گا ۔ اللہ میری شفاعت قبول فرمائے گا اور سر کے بالوں سے پائوں کے ناخن تک مجھے نور ہی نور کر دے گا ۔ سر تا قدم نور ہی نور کر دے گا ، یہ دیکھ کر کافر کہیں گے کہ مسلمانوں کو تو سفارشی مل گیا ، اب ہماری سفارش کون کرے گا ؟ خود ہی جواب دیں گے اب تو ابلیس ہی جس نے ہم کو گمراہ کیا تھا ہمارے سامنے ہے کوئی سفارشی موجود ہی نہیں ہے۔ جب یہ لوگ ابلیس کے پاس پہنچیں گے اس کو کہیں گے کہ تو ہمارے لیے سفارش کر ۔ ابلیس جونہی اٹھے گا اس کی مجلس میں بد ترین بو اڑنے لگی گی ، ایسی بدبو پہلے کسی نے نہیں سونگھی ہوگی ، پھر ابلیس ان کو جہنم کی طرف لے جائے گا اور ان سے کہے گا ” ان اللہ وعد کم وعد الحق “۔
Top