Tafseer-e-Baghwi - An-Nahl : 30
وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ؕ قَالُوْا خَیْرًا١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ١ؕ وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَۙ
وَقِيْلَ : اور کہا گیا لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا : ان لوگوں سے جنہوں نے پرہیزگاری کی مَاذَآ : کیا اَنْزَلَ : اتارا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے خَيْرًا : بہترین لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو لوگ اَحْسَنُوْا : بھلائی کی فِيْ : میں هٰذِهِ : اس الدُّنْيَا : دنیا حَسَنَةٌ : بھلائی وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ : اور آخرت کا گھر خَيْرٌ : بہتر وَلَنِعْمَ : اور کیا خوب دَارُ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا گھر
اور (جب) پرہیزگاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ بہترین (کلام) جو لوگ نیکو کار ہیں ان کے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو بہت ہی اچھا ہے۔ اور پرہیزگاروں کا گھر بہت خوب ہے۔
(30)” وقیل للذین اتقوا “ اور یہ اس وجہ سے کہ عرب کے بعض قبیلے موسم حج میں لوگوں کو بھیجا کرتے تھے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے متعلق خبر معلوم کریں تو وہ مشرک حاجیوں کے راستے میں بیٹھ جاتے تو ان بیٹھنے والوں سے گزرنے والا اگر پوچھتا تو یہ جواب دیتے کہ وہ ساحر، کاہن، جھوٹا، شاعر اور مجنون ہے ۔ (نعوذ باللہ) اگر پوچھنے والے کو اچھی خبر نہ ملتی تو وہ ان بیٹھنے والوں کے متعلق کہتا کہ یہ سب شر ہیں۔ اگر وہ وفد مکہ داخل ہونے سے پہلے واپس چلا جاتا تو اپنے حامیوں سے جا کر یہی خبر بیان کرتے اور اگر وہ مکہ میں داخل ہوجاتے تو پھر صحابہ کرام ؓ ان کو صحیح خبر دیتے کہ وہ سچے نبی (ﷺ) ہمارے اندر مبعوث ہوئے ہیں۔ ماذا انزل ربکم قالو اخیراً “ یعنی ہم پر بہتر چیز نازل فرمائی۔ پھر وہ اسی پر ابتداء کرتے۔” للذین احسنو فی ھذا الدنیا حسنۃ “ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزت۔ ابن عباس ؓ کے نزدیک ثواب کو دس گناتک بڑھادیاجاتا ہے۔ ضخاک (رح) کا قول ہے کہ اس سے مراد فتح اور نصرت ہے۔ مجاہد (رح) کا قول ہے کہ اس سے اچھی روزی مراد ہے۔” ولدار الاخرۃ “ اس گھر سے آخرت کا گھر بہتر ہے۔” خیر ولنعم دار المتقین “ حسن (رح) کا قول ہے کہ دارلمتقین سے مراد دنیا ہے۔ اہل تقوی یہیں سے آخرت کا سامان لے کر جاتے تھے۔ اکثر مفسرین رحمہم اللہ کے نزدیک اس سے مراد جنت ہے۔ پھر اس جنت کی تفسیر بیان کردی ہے۔
Top