Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 42
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَلَا تَلْبِسُوْا : اور نہ ملاؤ الْحَقَّ : حق بِالْبَاطِلِ : باطل سے وَتَكْتُمُوْا : اور ( نہ) چھپاؤ الْحَقَّ : حق وَ اَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ
42۔ (آیت)” ولا تلبسوالحق بالباطل “ یعنی خلط ملط نہ کرو ۔ کہا جاتا ہے ” لبس الثوب یلبس لبسا “ اور کہا جاتا ہے ” لبس علیہ الامر لبسا “ یعنی خلط ہوا ۔ (گویا لباس پہننے کے لیے لبس باب سمع سے آتا ہے اور اس کی مصدر لبس آتی ہے لام کی پیش اور خلط ملط کے معنی کے لیے ” لبس “ باب ضرب سے آتا ہے اس کی مصدر ” لبس “ آتی ہے لام کی زبر کے ساتھ ۔ کہا جاتا ہے خلط نہ کرو اس حق کو جو میں نے تم پر اتارا جس کا تعلق صفات محمدیہ سے ہے، باطل کے ساتھ جس کو اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہو محمد کریم ﷺ کی صفت کو تبدیل کرکے ۔۔۔۔ اکثر حضرات اس پر ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ اسلام کو (جو کہ حق ہے) یہودیت کے ساتھ خلط ملط نہ کرو ، حضرت مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ بیشک یہود نے حضور ﷺ کی بعض صفات کا اقرار کیا اور بعض صفات کو چھپایا تاکہ کہ اس میں وہ تصدیق کیے جائیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہ ملاؤ حق کو جس کو تم باطل کے ساتھ تبدیل کرتے ہو ۔ یعنی جو کچھ تم چھپاتے ہو ، حق سے مراد ان کا بیان کرنا ہے اور باطل سے مراد ان کا چھپانا ہے ۔ (آیت)” وتکتموا الحق “ یعنی اس کو نہ چھپاؤ ، یعنی تعریف مصطفیٰ کریم ﷺ (آیت)” وانتم تعلمون “ اس بات کو جانتے ہو کہ حضور ﷺ نبی مرسل ہیں۔
Top