Tafseer-e-Baghwi - Al-Anbiyaa : 58
فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ
فَجَعَلَهُمْ : پس اس نے انہیں کر ڈالا جُذٰذًا : ریزہ ریزہ اِلَّا : سوائے كَبِيْرًا : بڑا لَّهُمْ : ان کا لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
پھر ان کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا مگر ایک بڑے (بت) کو (نہ توڑا) تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں
تفسیر۔ 58۔ فجعلھم جذاذا، کسائی نے جیم کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ جذاذ جمع کا صیغہ ہے یہ جذ سے ماخوذ ہے۔ جذ کا معنی ہے کاٹنایہ مثل خفیف وخفاف کے ہے۔ اور دوسرے قراء نے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے ، مثل حطام ورفات کے ہوگا۔ الاکبیرا لھم، اس بڑے کو نہیں توڑا اور کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ بعض نے کہا کہ کلہاڑا اس کے ہاتھ کے ساتھ باندھ دیا، وہاں 72 بت تھے ان میں سے بعض سونے کے تھے اور بعض چاندی کے تھے۔ بعض ان میں سے لوہے کے تھے اور بعض پیتل کے اور بعض لکڑی کے اور بعض پتھر کے اور ان بتوں میں سے بڑا بت سونے کا تھا ان کی آنکھوں میں جواہرات تھے یاقوت کے۔ ” لعلھم الیہ یرجعون، ، کہ شاید وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف (دریافت کرنے کے لیے ) لوٹیں۔ الیہ یرجعون کی ضمیر کامرجع۔ 1) ۔ الیہ کی ضمیر ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے حضرت ابراہیم بتوں سے دشمنی رکھنے اور بت پرستی کی مخالفت کرنے میں مشہور تھے اس لیے حضرت نے بتوں کو توڑ دیا، اور بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ یہ خیال کرتے ہوئے جب یہ لوگ واپس آئیں تو میرے پاس آئیں گے اس وقت میں ان کو جتلادوں گا کہ تمہارے معبود ایک آدمی کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ 2) ۔ الیہ، کی ضمیر بڑے بت کی طرف راجع ہے مطلب یہ ہے کہ بت پرست لوگ جب میلہ سے واپس بڑے بت کے پاس آئیں گے تو اس سے دریافت کریں کہ چھوٹے بتوں کی یہ حالت کس نے کی۔ معبود کو علم ہونا اور جواب دینا چاہیے، وہ معبود ہی کیا جو نہ کچھ جانے نہ جواب دے آخر جواب نہ پاکر خود ہی ذلیل ہوں گے۔ 3) ۔ الیہ، کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے مطلب یہ کہ جب بتوں کی بےبسی ان پر ظاہر ہوگی توشاید اللہ کی طرف لوٹ آئیں۔
Top