Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 58
فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ
فَجَعَلَهُمْ : پس اس نے انہیں کر ڈالا جُذٰذًا : ریزہ ریزہ اِلَّا : سوائے كَبِيْرًا : بڑا لَّهُمْ : ان کا لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
پھر کر ڈالا (ابراہیم (علیہ السلام) نے) ان (مجسموں کو) ٹکڑے ٹکڑے مگر ان میں سے بڑا (جس کو چھوڑ دیا) تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچپن ہی میں بہت سمجھ عطا فرمائی تھی ، چناچہ انہوں نے اپنے باپ اور باقی قوم کے لوگوں سے فرمایا تھا کہ یہ کیا مورتیاں ہیں جن پر تم جھکے پڑتے ہو ، کیا ان میں کوئی صلاحیت ہے کہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکیں ، یہ تو بالکل بےجان اور بےحس و حرکت بت ہیں ، بھلا یہ کیسے الٰہ ہوسکتے ہیں اور ان کی عبادت کیسے کی جاسکتی ہے ؟ غرضیکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکین کو سخت طعن وملامت کی۔ تمثال مجسمہ کو کہا جاتا ہے جس کی جمع تماثیل آتی ہے۔ ویسے معنوی طور پر تمثال کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں اشغال کی وجہ سے انسان حقیقت سے غافل ہوجائے۔ مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کسی جگہ سے گزر رہے تھے کہ آپ کی نظر کچھ لوگوں پر پڑی جو شطرنج کھیل رہے تھے ، تو آپ نے اس واقعہ پر یہی آیت تلاوت فرمائی ماھذہ التماثیل التی انتم لھا عکفون یہ کیسی مورتیاں ہیں جن پر تم جھکے جا رہے ہو۔ گویا ایسا لہو ولعب جو انسان کو یاد الٰہی سے غافل کردے ، تمثال کی تعریف میں آتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملامت کا جواب مشرکین نے یہ دیا کہ ہمارے باپ دادا ان بتوں کی اس طرح پوجا کرتے آئے ہیں ، لہٰذا ہم بھی ویسے ہی کر رہے ہیں اور ہم اسے ترک نہیں کریں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تو اندھی تقلید ہے کہ تمہارے آبائو اجداد صریح گمراہی میں بھی ہوں تو تم ان کا طریقہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو۔ مشرک کہنے لگے ، کیا تو سنجیدگی سے بات کررہا ہے یا ہمارے ساتھ دل لگی کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا میں بالکل صحیح بات کررہا ہوں کہ پروردگار تو وہی ہے جو ارض وسما اور تمام چیزوں کا رب ہے اور میں اس بات پر پختہ گواہی دیتا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب تم کہیں چلے جائو گے تو میں ان بتوں کی خوب مرمت کروں گا۔ چناچہ ایسے ہی ہوا ، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے موقع پاتے ہی بتوں کو پاش پاش کردیا۔ تصور شیخ : حضرت شاہ اسماعیل شہید (رح) نے تصور شیخ کے نظریہ کو اسی آیت کے ساتھ رد کیا ہے کیونکہ بعض لوگ اس معاملہ میں غلو کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے شرک میں ملوث ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ گویا شاہ صاحب نے تصور شیخ کو بھی تماثیل میں شمار کیا ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ تصور شیخ کا نظریہ بزرگان دین نے اس لئے نکالا ہے کہ جس شخص کا دل ذکر الٰہی میں پختہ نہ ہوتا ہو اور دل میں انتظار پیدا ہوتا ہو تو ایسا شخص ذکر کرتے وقت یہ تصور کرکے کہ اس کا مرشد اس کے سامنے بیٹھا ہے اور وہ اسے سمجھا رہا ہے کہ اس طریقے سے ذکر کرو۔ اس طرح انسان میں دلجمعی پیدا ہو کر اسے ذکر کی طرف منہمک کرسکتی ہے۔ مگر بعض نے اس کا یہ مطلب لیا گویا کہ اس کا شیخ اس کے سامنے فی الواقع موجود ہے۔ یہی غلو ہے کہ اس نے اپنے شیخ کو حاضر ناظر سمجھ لیا ، جو کہ خدا تعالیٰ کی صفت ہے اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوگیا۔ شاہ اسماعیل شہید (رح) نے اس غلو کی وجہ سے اس نظریہ کی مخالفت کی ہے۔ بتوں کی مرمت : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے عزم کی تکمیل یعنی بتوں کی مرمت کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں تھے حتیٰ کہ قوم کا تہوار یا میلے کا دن آگیا جسے وہ شہر سے باہر جاکر منایا کرتے تھے۔ جب وہ لوگ اپنی عید منانے کے لئے تیار ہوئے تو انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی ہمراہ چلنے کی دعوت دی فنظر………………سقیم (الصفت 89 , 88) تو آپ ستاروں کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ میں تو بیمار ہوں اور اس طرح آپ قوم کے ساتھ نہ گئے ، پھر جب وہ سب لوگ چلے گئے اور بت خانے کو دیکھ بھال کرنے والا کوئی باقی نہ رہا تو آپ اس کے اندر چلے گئے فجعلھم جذاذا الا کبیرا لھم اور بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا سوائے ان کے بڑے بت کے ۔ اور پھر یہ کیا کہ جس کلہاڑے کے ساتھ بتوں کو توڑا تھا وہ کلہاڑا بڑے بت کے گلے میں لٹکا دیا لعلھم الیہ یرجعون تاکہ جب وہ لوگ واپس آئیں تو اسی کی طرف رجوع کریں۔ اس مرجع کے متعلق مفسرین کرام کی دورائیں ہیں۔ پہلی رائے یہ ہے کہ مشرک لوگ بتوں کی یہ گت دیکھ کر بڑے بت کی طرح رجوع کریں گے جو کہ صحیح سلامت ہے تاکہ اس سے پوچھیں کہ ان باقیوں کو کیا ہوا۔ ویسے بھی چونکہ وہ لوگ ان بتوں کے پجاری تھے لہٰذا انہیں اپنے معبود کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے تھا۔ البتہ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بتوں کی یہ حالت دیکھ کر شاید مشرک لوگ ان سے بیزار ہوجائیں اور اللہ وحدہ لا شریک کی طرف رجوع کریں کہ حقیقی معبود وہی ہے۔ بہرحال پہلا معنی زیادہ متبادر ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا انتہائی اقدام : ظاہر ہے کہ بتوں کو پاش پاش کردینا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا انتہائی اقدام تھا۔ آپ کفر وشرک سے سخت متنفر تھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچپن ہی میں سمجھ عطافرمائی تھی اور بڑا حوصلہ اور جرات عطا کی تھی اس وقت بادشاہ بڑا ظالم اور جابر تھا ، اس کی ساری رعایا بمع حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد اور دیگر عزیز و اقارب آپ کے مخالف تھے۔ ان حالات میں بت خانے میں داخل ہو کر بتوں کو توڑ دینا ایک انتہائی اقدام تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پورا اندازہ تھا کہ ان کی قوم ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔ اس لئے انہوں نے جان پر کھیل کر یہ کام انجام دیا۔ فتح مکہ پر بت شکنی : حضور ﷺ نے بھی اپنے جدامجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اتباع میں یہی کام کیا۔ جب حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت خانہ کعبہ کے اندر اور باہر دیواروں کے ساتھ سینکڑوں بت رکھے ہوئے تھے۔ مکہ کے سارے مشرک مغلوب ہوچکے تھے اور کسی میں مزاحمت کی ہمت نہ تھی۔ آپ نے حکم دیا کہ جو بھی مشرک راستہ روکنے کی کوشش کرے اس کو راستہ سے زبردستی ہٹا دیا جائے ، اور جو گردن اٹھا کر آئے اس کی گردن اڑا دی جائے۔ جب آپ کو مکہ پر مکمل تسلط ہوگیا تو آپ نے تمام مقامات پر موجود بت توڑ دیے اور وہاں پر مسجدیں بنانے کا حکم دیا۔ حضور ﷺ نے حضرت جریر ؓ اور آپ کے ساتھیوں کو یمن میں ذی الخلصہ کی مہم پر روانہ فرمایا۔ وہاں پر مشرکوں نے بیت اللہ شریف کے مقابلے میں ایک جعلی خانہ کعبہ بنارکھا تھا جس کا طواف ہوتا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا جب میں سنتا ہوں کہ مشرکوں نے بھی علیحدہ خانہ کعبہ بنارکھا ہے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے شرک کے اس شعار کو مٹا کر مجھے راحت پہنچائو۔ چناچہ حضرت جریر ؓ کے ساتھ ڈیڑھ سو سواروں کا دستہ گیا جس نے اس نام نہاد خانہ کعبہ کو مٹا کر حضور ﷺ کی خدمت میں یہ خوشخبری بھجوادی ۔ آپ نے اس لشکر کے حق میں پانچ مرتبہ دعا فرمائی۔ شعائر شرک کا تلف کرنا ضیاع مالی نہیں : اس سے یہ بات پاثہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ حتیٰ الامکان شعائر شرک وکفر کو مٹانا ضروری ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر شرک کا ارتکاب حکومتی سطح تک ہورہا ہے تو پھر اس کے تدارک کے لئے اقتدار کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی شخص بغیر اقتدار کے از خود شرک کے نشانات کو مٹانے کی کوشش کرے گا تو اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح جان پر کھیلنا ہوگا۔ پچھلی سورة میں حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے تذکرے میں بھی پڑھ چکے ہیں کہ سامری کے بنائے ہوئے سونے کے بچھڑے کو موسیٰ (علیہ السلام) نے بالکل تلف کردیا تھا۔ یہ ایک قیمتی دھات تھی جسے دوسرے مصرف میں بھی لایا جاسکتا تھا ، مگر آپ نے اس کا برادہ بنا کر اس کو جلاڈالا اور پھر اس کی راکھ کو پانی میں بہادیا یا خشکی پر بکھیر دیا۔ مقصد یہ تھا کہ شرک کے اس نشان کو کلیۃً مٹا دیاجائے۔ اس کو قیمتی مال کا ضیاع بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کیا گیا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی مٹی ، پتھر ، لکڑی اور قیمتی دھات سے بنے ہوئے بتوں کو توڑ پھوڑ کر ضائع کردیا تھا حالانکہ ان سے برتن یا آلات بھی بنائے جاسکتے تھے۔ آج کل اس قسم کی چیزیں عجائب گھروں میں سجائی جاتی ہیں اور یہ بھی غلط ہی اس سے کوئی نصیحت یا عبرت تو حاصل نہیں ہوتی ، شرک کے شعائر کو محض یادگار کے طور پر محفوظ کرلینا بجائے خود شرک کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ یہ تغریے اور پتنگیں بھی شرک و بدعت کے نشانات ہیں۔ جبھی موقع ملے انہیں ضائع کردینا چاہیے ہاں اگر انسان میں ہمت نہیں ہے تو پھر ایسا کرنا فتنے سے خالی نہیں ہوگا۔ محمود غزنوی (رح) نے سومنات کا مندر فتح کیا تو اس کا قیمتی گیٹ اکھاڑ کر کابل لے گیا ، حالانکہ کفر وشرک کے اس شعار کو تلف کردینا چاہیے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہزار برس کے بعد ہندوئوں نے کابل والوں سے سوا لاکھ روپے کے عوض یہ دروازہ واپس لے لیا اور پھر مندر میں لگا دیا۔ حضرت عمر ؓ نے کسریٰ کے محل کا بہت قیمتی قالین حاصل کیا اور اس کو یادگار کے طور پر سنبھال کر رکھنے کی بجائے اس کو کاٹ کر مصلے بنوائے اور مجاہدین میں تقسیم کردیئے۔ مشرکین کا رد عمل : بہرحال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا۔ پھر جب لوگ تہوار منانے کے بعد واپس آئے تو بتوں کو اس حالت میں دیکھ کر قالوا من فعل ھذا بالھتنا انہ لمن الظلمین کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ بدسلوکی کس نے کی ہے ، بیشک ایسا شخص بےانصافوں میں سے ہے۔ قالوا ان میں سے بعض نے کہا سمعنا فتی یذکر ھم یقال لہ ابرھیم ہم نے ایک نوجوان کو ان بتوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جس کو ابراہیم کہا جاتا ہے۔ اسی نے کہا تھا کہ میں ان بتوں کی مرمت کروں گا ، اسی نے یہ کام کیا ہوگا قالوا فالوا بہ علی اعین الناس لعلھم یشھدون چناچہ انہوں نے کہا کہ اس نوجوان کو لوگوں کے سامنے لائو تاکہ وہ خود ایسے شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ اس نے ہمارے معبودوں کی توہین کی ہے ، لہٰذا اسے سزا ملنی چاہیے۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لایا گیا تو قالوآء انت فعلت ھذا بالیھتنا یا ابرھیم وہ کہنے لگے۔ اے ابراہیم ! کیا ہمارے معبودوں کے ساتھ تو نے یہ سلوک کیا ہے ؟ قال بل فعلہ کبیر ھم ھذا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا ، بلکہ یہ کام ان کے اس بڑے نے کیا ہے فسئلوھم ان کانوا ینطقون انہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔ یہ بڑا بت صحیح سلامت موجود ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی نے ناراض ہو کر یہ ساری کاروائی کی ہے۔ یہ کلہاڑا بھی اسی کے پاس ہے ، لہٰذا مجھ سے پوچھنے کی بجائے اسی سے اس واردات کے متعلق دریافت کرو۔ دنیا میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ طاقتور کمزوروں پر قابو پالیتے ہیں۔ بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں اور بڑے سانپ چھوٹے سانپوں کو نگل جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہاں بھی ایسا ہی معاملہ ہوا ہو ، اور بڑے بت چھوٹے بتوں کہ تہس نہس کردیا ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات محض مشرکوں کو الزام دینے اور لاجواب کرنے کے لئے کی۔ کذبات ثلاثہ : حدیث شریف میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قول بل فعلہ کبیرھم ھذا کو کذب کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ وہاں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کذب بیانی نہیں کی مگر تین باتوں میں جن میں اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب تھی ایک بات تو یہی تھی جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کی توڑ پھوڑ کر متعلق فرمایا کہ ان کے بڑے نے کی ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ آپ مشرکین کے ساتھ تہوار میں جانے کے لئے انی سقیم کا بہانا کیا تھا کہ میں بیمار ہوں ، حالانکہ آپ حقیقتاً بیمار نہیں تھے۔ تیسرا واقعہ آپ کو مصر میں داخل ہوتے وقت پیش آیا ۔ آپ کے ساتھ آپ کی بیوی سارہ تھی۔ وہاں کے جابر بادشاہ کا یہ طریقہ تھا کہ اگر کوئی نووارد میاں بیوی داخل ہوتے تو خاوند کو قتل کروا دیتا اور عورت پر قبضہ کرلیتا اور اگر وہ بہن بھائی ہوتے تو انہیں چھوڑ دیتا۔ اس فتنے سے بچنے کے لئے انہوں نے حضرت سارا کو سمجھا دیا کہ اگر کوئی تم سے پوچھے تو کہہ دینا کہ ہم بہن بھائی ہیں۔ بعض لوگوں نے بخاری شریف اور ترمذی شریف کی سا صحیح حدیث کا محض اس بناء پر انکار کردیا ہے کہ اس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر کذب بیانی صادق آتی ہے جو اللہ کے جلیل القدر نبی کی شان کے شایان نہیں حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ان کی ظاہری شکل و صورت کذب کی نظر آتی ہے مگر یہ جھوٹ نہیں ہے۔ اس کو تو ریہ یعنی ذومعنی کلام کہا جاتا ہے۔ ایسے کلام سے کلام کرنے والے کی مراد کچھ اور ہوتی ہے اور سمجھنے والا کوئی دوسرا مطلب اخذ کرتا ہے یہ تینوں باتیں اس زمرہ میں آتی ہیں۔ جہاں تک بل فعلہ کبیرھم ھذا کا تعلق ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اس سے یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ کام ضرور اس بڑے بت نے ہی کیا ہے بلکہ یہ بات آپ نے استفہامیہ انداز میں کی کہ ذرا ان سے پوچھو تو سہی کہ کیا یہ کام اس بڑے نے کیا ہے ؟ دوسری بات اپنی بیماری کے متعلق تھی ، کہ میں بیمار ہوں۔ اس سے آپ کی مراد جسمانی بیماری نہیں تھی بلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے شرک کو دیکھ کر مجھے روحانی تکلیف ہورہی ہے سقیم فاعل کا صیغہ ہے اور اس سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ میں پہلے کسی وقت بیمار تھا یا آئندہ بیمار ہوسکتا ہوں۔ تیسری بات بیوی کو بہن کہنے والی ہے ، تو اس وقت اللہ کی زمین پر یہ دونوں میاں بیوی ہی تھے جو دین حق پر تھے اور انما المومنون اخوۃ (الحجرات 10) بھائی بھی تھے ، لہٰذا آپ نے اس طرح کا ذومعنی کلام کردیا اور بادشاہ کے شر سے بچ گئے۔ مشرکین کا اظہار تاسف : جبحضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکوں کہ یہ لاجواب دلیل پیش کی کہ اس واقعہ کے متعلق خود ان بتوں سے پوچھو لو اگر یہ بولتے ہیں ، تو وہ سخت پریشان ہوئے فرجعوا الی انفسھم پس وہ لوٹے اپنے نفسوں کی طرف فقالوا انکم انتم الظلمون اور ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ واقعی تم خود ہی بڑے بےانصاف ہو اس بےانصافی کا مرجع یہ ہے کہ تم ایسی چیزوں کو معبود بناتے ہو جو بالکل بےاختیار ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بالکل درست فرما رہے ہیں حقیقت میں اس معاملہ میں زیادتی کرنے والے تم ہی ہو۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم کتنے بیانصاف ہو کہ ان بتوں کو بےیارومددگار چھوڑ کر سب کے سب چلے گئے اور ان کی حفاظت کا کوئی انتظام ہی نہ کیا ، تاہم پہلا معنی زیادہ واضح ہے۔ انہوں نے پہلے تو اپنے آپ کو ملامت کیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے ثم نکسوا علی رء وسھم پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے کردیے گئے۔ کہنے لگے ، اے ابراہیم ! تیری بات تو ٹھیک ہے کہ ہم انہی سے پوچھ لیں کہ ان پر کیا واردات گزری ہے مگر لقد علمت ما ھولاء ینطقون یہ تو تم بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ بت بولنے سے قاصر ہیں ، پھر بھلا ہم ان سے کیا دریافت کریں ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اظہار حقیقت : ابحضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اظہار حقیقت کا موقع مل گیا۔ آپ درس توحید دینے اور شرک کے رد کے لئے کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھے قال افتعبدون من دون اللہ مالا ینفعکم شیئا ولا یضرکم۔ فرمایا کیا تم اللہ کے سوا ان کی پوجا کرتے ہو جو نہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ تم ان بتوں کی کیوں تعظیم کرتے ہو۔ ان کے سامنے سجدے اور رکوع کرتے ہو اور ان کے سامنے نذرانے کیوں پیش کرتے ہو۔ جب کہ یہ بولنے سے بھی عاجز ہیں فرمایا اف لکم ولما تعبدون من دون اللہ افسوس ہے تم پر بھی اور ان پر بھی جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو افلا تعقلون کیا تم میں عقل کا کوئی مادہ نہیں ہے ؟ بھلا سوچو تو سہی کہ تم کن چیزوں کی پرستش کر رہے ہو جن میں کوئی صلاحیت اور استعداد ہی نہیں ہے ۔ یہ نہ تو نفع نقصان کے مالک ہیں ، نہ علیم کل اور قادر مطلق ہیں حتیٰ کہ بولنے سے بھی قاصر ہیں تو تم نے انہیں معبود کیسے ٹھہرا لیا ہے ؟ غرضیکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں اور خود ان کے پجاریوں کو خوب مطعون کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اجمالی طور پر قوم کے آپ کے ساتھ سلوک کا ذکر کیا ہے۔ دوسری سورتوں میں اس واقعہ کی مزید تفصیلات بھی موجود ہیں۔
Top