Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 35
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
اِذْ : جب قَالَتِ : کہا امْرَاَتُ عِمْرٰنَ : بی بی عمران رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نَذَرْتُ : میں نے نذر کیا لَكَ : تیرے لیے مَا : جو فِيْ بَطْنِىْ : میرے پیٹ میں مُحَرَّرًا : آزاد کیا ہوا فَتَقَبَّلْ : سو تو قبول کرلے مِنِّىْ : مجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھونگی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما تو تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے
35۔ (اذ ۔۔۔۔۔۔ عمران یاد کرو جبکہ عمران کی بیوی نے کہا تھا) (ابراہیم اور موسیٰ (علیہم السلام) کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ) عمران (علیہ السلام) کی بیوی کا نام حنۃ بنت فاقوذا جو حضرت مریم (علیہا السلام) کی والدہ محترمہ تھیں اور عمران سے عمران بن ماثان ہیں، عمران بن ابی موسیٰ (علیہ السلام) نہیں تھے کیونکہ ان دونوں کے درمیان ایک ہزار آٹھ سو سال کا فاصلہ ہے ۔ اور بعض نے کہا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ایک ہزار سال کا فاصلہ ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ایک ہزار سال کا فاصلہ ہے اور ماثان کی اولاد بنی اسرائیل کی سردار اور بادشاہ تھی اور بعض حضرات نے کہا کہ اس سے مراد عمران بن اشھم ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (رب ۔۔۔۔۔۔ بطنی محررا اے میرے رب میں نے نذر مانی ہے آپ کے لیے اس بچے کی جو میرے بطن میں ہے کہ وہ آزاد رکھا جائے گا) (گرجا کی خدمت کیلئے بچوں کو وقف کرنے کی نذر ماننا) یعنی جو کچھ میرے بطن میں ہے اس کو تیرے لیے آزاد کرتی ہوں اور تیرے لیے نذر مانتی ہوں (فتقبل ۔۔۔۔ العلیم، پس تو اس کو میرے لیے قبول فرما ، بیشک تو سننے والا اور جاننے والا ہے) نذر کہتے ہیں انسان جو اپنے اوپر لازم کرلے محرزا اس کو خالص اللہ کی رضا کے لیے ، محض اللہ کی عبادت کے لیے اور گرجا کی خدمت کے لیے آزاد کرتی ہوں تاکہ دنیا کے وہ کسی کام میں مشغول نہ ہو اور جس کو اللہ کے لیے خالص کیا جائے تو اس کو محرر کہا جاتا تھا ، جیسا کہ کہا جاتا ہے ” حررت العبد اذا اعتقتہ “۔ جب غلام کو آزاد کیا جائے اور اس کو رقیت سے نجات دلا دی جائے ، کلبی (رح) نے محمد بن اسحاق (رح) وغیرہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب گرجا گھر کے لیے کسی کو آزاد کردیا جاتا تو وہ جوان ہونے تک ، اس کی خدمت کرتا جوان ہونے کے بعد اس کو اختیار ہوتا کہ چاہے تو وہیں رہ کر گرجا کی خدمت کرتا رہے اور چاہیے تو کہیں چلا جائے پھر اس سے زبردستی خدمت نہ لی جاتی ، کوئی پیغمبر اور مذہبی عالم ایسا نہیں ہوتا کہ اس کی نسل کا کوئی فرد بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف نہ کیا گیا ہو ، یہ وقف کرنے کا دستور لڑکوں کے لیے تھا نہ کہ لڑکیوں کیلیے کیونکہ ان کے ساتھ وہ عوارض لاحق ہوتے ہیں جو لڑکوں کے ساتھ نہیں ہوتے ۔ (ام مریم (علیہا السلام) کی دعا اور قصہ) ام مریم (علیہا السلام) نے اپنے بطن میں جو کچھ تھا اس کو آزاد کردیا اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) اور حضرت عمران (علیہ السلام) نے دونوں بہنوں کے ساتھ شادی کی ایشاع بنت فاقوذا جو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی والدہ تھیں حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی تھیں اور حنۃ بنت فاقوذا حضرت مریم (علیہا السلام) کی والدہ یہ عمران (علیہ السلام) کی بیوی تھیں ، حضرت حنۃ کی کوئی اولاد نہ ہوئی یہاں تک کہ وہ بوڑھی ہوگئیں ، ایک روز کسی درخت کے نیچے سے انہوں نے دیکھا کہ ایک پرندہ اپنے بچے کو چونچ سے کھلا رہا ہے یہ دیکھ کر ان کے دل میں بچے کے لیے خواہش اٹھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے اللہ !, مجھے بھی بچہ عطا فرما اور فرمانے لگیں اے اللہ ! اگر تو نے مجھے بچہ عطا فرمایا تو میں اس کو بیت المقدس کی طرف صدقہ کروں گی تاکہ وہ بیت المقدس کی خدمت کرسکے، حضرت مریم (علیہا السلام) کی والدہ کی دعا قبول ہوئی اور اللہ نے ان کو مریم (علیہ السلام) سے حاملہ کردیا اور ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ حمل مذکر ہے یا مؤنث ، پھر ان کے شوہر نے کہا کہ ہلاکت ہو یہ تو نے کیا کیا ، کیا تو دیکھتی اگر وہ لڑکی ہوئی تو وہ اس کی صلاحیت نہیں رکھے گی دونوں اس وجہ سے غمگین ہوگئے اسی اثناء میں حضرت عمران (علیہ السلام) انتقال کر گئے اور حضرت حنہ مریم (علیہا السلام) سے حاملہ تھیں ۔
Top