Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 35
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
اِذْ : جب قَالَتِ : کہا امْرَاَتُ عِمْرٰنَ : بی بی عمران رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نَذَرْتُ : میں نے نذر کیا لَكَ : تیرے لیے مَا : جو فِيْ بَطْنِىْ : میرے پیٹ میں مُحَرَّرًا : آزاد کیا ہوا فَتَقَبَّلْ : سو تو قبول کرلے مِنِّىْ : مجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھونگی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما تو تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے
قصہ حضرت مریم وحضرت عیسیٰ (علیہما السلام) قال تعالی، اذ قالت امرات عمران رب۔۔۔ الی۔۔ بغیرحساب۔ ربط) ۔ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ کے چند محب اور محبوب بندوں کا اجمالا ذکر تھا اب اس کی تفصیل شروع ہوتی ہے اس سلسلہ میں سب سے پہلے آل عمران کا قصہ ذکر فرمایا جس سے مقصود یہ ہے کہ اہل کتاب کے دو بڑے گروہ یہود اور نصاری دونوں کے خیالات اور مزعومات فاسدہ کا اور ان کی افتراء پردازیوں کا فیصلہ کردیا جائے یہود بےبہبود نے حضرت عیسیٰ کے حق میں غایت درجہ تفریط کی ان کو ان کی شان عالی سے گھٹایا اور ان کو کاہن اور جادوگر بتلایا اور نصاری نے افراط کی یعنی ان کی تعظیم میں غلو اور مبالغہ کیا کہ ان کی ابنیت اور الوہیت کے قائل ہوئے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی ولادت اور طفولیت اور ان کی کہولیت اور ان کے بشری احوال کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا تاکہ یہ امر خوب واضح ہوجائے کہ حضرت عیسیٰ جنس بشر سے ہے اور حضرت آدم کی ذریت سے ہیں معاذ اللہ اللہ اور اللہ کے بیٹے نہیں اس لیے کہ احوال بشریت اور اطوار انسانیت سے گزرنا الوہیت اور ابنیت کے قطعا منافی ہے اللہ تعالیٰ احوال اور تغیرات سے پاک اور منزہ ہے حضرت عیسیٰ اگر خدا ہوتے تو ماں کے پیٹ سے پیدانہ ہوتے اور نہ ماں کی گود میں پرورش پاتے الغرض حضرت عیسیٰ کی ولادت اور طفولیت اور کہولیت کو نصارائے نجران کے عقیدہ الوہیت اورا بنیت کے ابطال کے لیے ذکر فرمایا۔ بعدازاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت اور ان کے فضائل اور معجزابت اور رفع الی السماء کو یہود کے رد کے لیے بیان فرمایا تاکہ یہود بےبہبود یہ سمجھ جائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو عزت دیتا ہے اور ان کے دشمنوں کو ذلیل اور خوار کرتا ہے اور مال اور اولاد کی کثرت ان کے کچھ کام نہیں آتی اللہ تعالیٰ کو یہ بھی قدرت ہے کہ اپنے کسی دوست کو دشمنوں کے نرغہ سے نکال کر آسمان پر لے جائے اور دشمنوں ہی میں سے کسی کو اپنے دوست کے ہم شکل بنا کر پھانسی پر لٹکوا دے اور تاکہ ان باتوں سے یہود یہ سمجھ جائیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے مقبول اور برگزیدہ بندے اور رسول برحق تھے اور کاہن اور ساحر نہ تھے غرض یہ کہ اس طریق سے یہود اور نصاری دونوں کا خوب رد ہوگیا اور دونوں گروہ کے عقیدہ کا فاسد اور باطل ہونا خوب واضح ہوگیا۔ یا یوں کہو کہ ان حضرات انبیاء ومرسلین کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ اللہ کی محبت اور رضا اور خوشنودی کا ذریعہ ان حضرات کا اتباع اور اطاعت ہے اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ نبی کی اطاعت ہے فلاتمترن بھا واتبعون ھذا صراط مستقیم۔ اور صحیح دین بھی وہی ہے جو ان حضرات کا تھا اور وہی دین بھی اسلام ہے جسکی طرف تم کو نبی آخرالزمان بلا رہے ہیں چناچہ فرماتے ہیں وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ عمران کی بی بی نے جن کا نام حنہ بنت فاقوذا تھا اپنے زمانہ کے رواج کے مطابق حالت حمل میں یہ منت مانی کہ اے میرے پروردگار میں نے آپ کے لیے نذر کیا وہ بچہ جو میرے شکم میں ہے تیری عبادت کے لیے اور تیرے گھر کی خدمت کے لیے آزاد ہوگا ماں باپ اس سے اپنی کوئی خدمت نہ لیں گے باقی تمام دنیوی مشاغل سے آزاد ہو کر فقط تیری عبادت اور تیرے گھر کی خدمت میں لگار رہے گا پس تو اپنی رحمت سے میری اس نذر کو قبول فرمالے تحقیق تو میری عرض ومعروض کو سن رہا ہے اور میری نیت اور اخلاص کو جاننے والا ہے اس لطیف اور پاکیزہ عنوان سے دعا مانگنے میں اشارہ اس طرف تھا کہ مجھ کو فرزند عطا فرمایا کہ کیونکہ لڑکیاں اس خدمت کے لیے قبول نہیں کی جاتی تھیں پس جب خلاف توقع لڑکی جنی تو نہایت حسرت سے کہا اے میرے پروردگار میں نے تو اس حمل کو لڑکی کو جنا میری نذرتواب پوری ہوگئی اس لیے کہ لڑکی قبول کرنے کا دستور نہ تھا امراہ عمران تو حسرت کررہی تھیں اور اللہ کو بہتر معلوم ہے کہ جو کچھ اس نے جنا اور وہ فرزند جس کی وہ خواہش کرتی تھیں اس دختر کے برابر نہیں جو من جانب اللہ ان کو دی گئی۔ ف) ۔ یہ درمیان میں بطور جملہ معترضہ قول خداوندی ہے اور مطلب یہ ہے کہ عرمان کی بیوی کی حسرت اس بناء پر ہے کہ اس کو یہ معلوم نہیں کہ یہ لڑکی کس شان اور مرتبہ کی ہے اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لڑکی کیسی مبارک اور مسعود ہے اور اس کے وجود میں ایک ایسے عظیم الشان فرزند ارجمند کا وجود مخفی اور مضمر ہے جو خیروبرکت میں اس کے وہم و گمان سے کہیں بالا اور برتر ہے یہاں تک کہ بطور جملہ معترضہ کلام خداوندی تھا اب آگے پھر عمران کی بی بی کا قول ہے اور تحیق میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا مریم کے معنی ان کی زبان میں عابدہ یعنی عبادت کرنے والی کے تھے حضرت حنہ کا مقصود یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ مریم کو اسم بامسمی بنادے اور یہ عرض کیا کہ بارالہا میں مریم کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود کے شر سے تیری پناہ میں دیتی ہوں پس اللہ تعالیٰ نے اس لڑکی ہی کو لڑکے کے عوض قبول فرمالیا نہایت عمدہ قبول کے ساتھ یعنی لڑکوں سے بڑھ کر اس لڑکی کو قبول کرلیا اور مریم (علیہا السلام) کا لڑکی ہونا قبولیت کے لیے مانع نہ ہوا اور بڑھایا اللہ تعالیٰ نے اس لڑکی کو اچھی طرح بڑھانا یعنی ان کی ظاہر اور باطنی تربیت فرمائی اور ان کی بالیدگی کو ایسامکمل کیا کہ کوئی چیز ان کو بگاڑ نہ سکے اور ان کی قبولیت اور انبات حسن یعنی ان کی تربیت کی ایک صورت یہ پیدا فرمائی کہ اپنے ایک مقبول اور برگزیدہ بندہ یعنی حضرت زکریا کو ان کا کفیل اور خبرگیر بنادیا اور جب حضرت مریم کچھ سیانی ہوگیں تو حضرت زکریا نے ان کے لیے مسجد کے قریب ایک حجرہ مخصوص کردیا جو محراب کے قریب تھا جس میں رہ کر دن بھر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتیں جب کبھی حضرت زکریا مریم کے پاس محراب یعنی حجرہ کے گھر کا تھا اور نہ باہر کا اس لیے کہ حضرت زکریا جب چلے جاتے تھے تو حجرہ کا دروزہ بند کردیتے تھے اور پھر تعجب یہ تھا کہ ان کے سامنے غیرموسم کا پھل رکھا ہوا دیکھتے سردیوں کا میوہ گرمیوں میں اور گرمیوں کا سردی میں اس لیے حضرت زکریا نے تعجب سے کہا اے مریم یہ تیرے لیے کہاں سے آیا مریم بولی یہ اللہ کے پاس سے آیا ہے اللہ جس کو چاہے بغیر قیاس اور بغیر اندازہ اور بغیروہم و گمان کے روزی دے اس کے رزق دینے کے لیے کسی ظاہرسبب کی ضرورت نہیں۔ فوائد۔ 1۔ صحیحین میں ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو بچہ پیدا ہوتا ہے کہ پیدا ہوتے وقت شیطان اس کو مس کرتا ہے یعنی چھوتا ہے جس سے وہ روتا ہے مگر حضرت مریم ور ان کے بیتے یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سو یہ دونوں اس سے مستثنی رہے اور چونکہ امراۃ عمران کی یہ دعا استعاذہ عین ولادت کے ساتھ تھی اس لیے اس وقت تک شیطان مس واقع نہ ہوا تھا اگرچہ قرآن کریم میں امراۃ عمران کی اس دعا استعاذہ کا ذکر بعد ولادت کے واقع ہوا لیکن واو ترتیب وقوعی پر دلالت نہیں کرتا لہذا اب یہ اشکال نہیں رہا کہ امراۃ عمران کی یہ دعا تو ولادت کے بعد ہوئی اور مس شیطان اس سے پہلے عین وضع حمل اور ولادت کے وقت ہوتا ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ دعا تو عین ولادت کے وقت تھی مگر قرآن کریم میں ذکر اس دعا کا بعد میں ہے یہ دعا ذکر میں موخر ہے اور وقوع میں مقدم ہے۔ 2۔ ولادت کے وقت شیطان ہر بچہ کو مس کرتا ہے سوائے مریم اور ان کے بیٹے کے لیکن عباد مخلصین کو یہ مس شیطانی کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا اور نہ اس مس سے ان کی عصمت اور نزاہت میں کوئی فرق آتا ہے اور نہ اس ایک خاص خصوصیت کی بناء پر حضرت پر حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کی اور انبیاء کرام پر افضیلت ثابت ہوتی ہے۔ یہ امر بدیہی اور مسلم ہے کہ حضرت مریم شان اور رتبہ میں ابراہیم خلیل اللہ اور موسیٰ کلیم اللہ سے اعلی اور افضل نہیں اس لیے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے بارے میں یہ نہیں آیا کہ شیطان نے ان کو مس نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو خلت اور تکلیم سے سرفراز فرماای اللہ تعالیٰ نے کسی حکمت اور مصلحت سے حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کو مس شیطانی سے استثنی فرمایا اور دوسرے حضرات انبیاء جو خدا کے مقدس اور معصوم بندے ہیں اگرچہ وہ اس ضابطہ سے مستثی نہ ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں اس لیے کہ ان عباد مخلصین پر شیطان کی کوئی حرکت کارگر نہیں، حدیث میں ہے کہ جس راستہ پر عمر چلتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے کیا کوئی خوش فہم اس سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ حضرت عمر نبی اکرم سے بھی افضل تھے اور معاذ اللہ نبی ﷺ کا مقصود یہ نہ تھا کہ حضرت عمر مجھ سے بھی افضل ہیں بلکہ اس سے مقصود حضرت عمر کی ایک خاص فضیلت اور خاص خصوصیت بیان کرتی تھی الغرض اس قسم کے خصوصی امتیازات سے فضیلت تو ثابت ہوتی ہے لیکن افضلیت ثابت نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خاص خصوصیت دی ہے۔
Top