Tafseer-e-Baghwi - Faatir : 37
وَ هُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَا١ۚ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ١ؕ اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا یَتَذَكَّرُ فِیْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَ جَآءَكُمُ النَّذِیْرُ١ؕ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ۠   ۧ
وَهُمْ : اور وہ يَصْطَرِخُوْنَ : چلائیں گے فِيْهَا ۚ : دوزخ میں رَبَّنَآ : اے ہمارے پروردگار اَخْرِجْنَا : ہمیں نکال لے نَعْمَلْ : ہم عمل کریں صَالِحًا : نیک غَيْرَ : برعکس الَّذِيْ : اس کے جو كُنَّا نَعْمَلُ ۭ : ہم کرتے تھے اَوَ : کیا لَمْ نُعَمِّرْكُمْ : ہم نے تمہیں عمر نہ دی تھی مَّا يَتَذَكَّرُ : کہ نصیحت پکڑ لیتا وہ فِيْهِ : اس میں مَنْ : جو۔ جس تَذَكَّرَ : نصیحت پکڑتا وَجَآءَكُمُ : اور آیا تمہارے پاس النَّذِيْرُ ۭ : ڈرانے والا فَذُوْقُوْا : سو چکھو تم فَمَا : پس نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ نَّصِيْرٍ : کوئی مددگار
وہ اس میں چلائیں گے کہ اے پروردگار ہم کو نکال لے (اب) ہم نیک عمل کریں گے نہ وہ جو (پہلے) کرتے تھے کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تو اب مزے چکھو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں
37، وھم یصطر خون، وہ مددطلب کرتے ہیں اور چیختے ہیں۔ ، فیھا ربنا اخرجنا، اس آگ سے ۔ ، نعمل صالحا غیر الذی کنا نعمل ، دنیا میں شرک اور برائیوں سے اللہ تعالیٰ ان کی تو بیخ کے طور پر فرماتا ہے ۔ ، والم نعمر کم ما یتذکرفیہ من تذکر، بعض نے کہا اس سے بلو غ مراد ہے۔ آیت والم نعمر کم میں کتنی عمر مراد ہے آیت میں عمر سے کتنی مراد ہے ؟ علماء کے اقوال اس میں مختلف ہیں ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ قتادہ ، عطاء اور کلبی کے نزدیک اٹھا رہ سال کی عمر مراد ہے ۔ حسن نے چالیس کی حدمقر رکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کے نزدیک ساٹھ سال کی عمر مراد ہے۔ یہ وہ عمر ہے کہ اس کے بعد آدمی کو اللہ کے سامنے عذرخواہی کا کوئی موقع نہیں رہتا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ کسی شخص کی عمر ساٹھ سال تک پہنچا دے تو پھر اس کی طرف سے کسی عذر کو قبول نہیں کرتا۔ (رواہ البخاری وکذا اخرج البرز ارواحمد وعبدبن حمید عن ابی ہریرہ) کیوں کہ زیادہ ترطبعی عمر اس کے بعد نہیں رہتی ۔ ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ابو یعلی نے مسند میں حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (عام طورپر) میری امت عمریں ساٹھ سال سے ستر تک ہوں گی اور ستر سال سے آگے بڑھنے والے بہت کم ہوں گے۔ یہ مطلب نہیں کہ ساٹھ سال سے پہلے گناہ کرنے کا عذرقابل قبول نہ ہوگا کیونکہ بالغ ہونے کے بعد ہی آدمی مکلف ہوجاتا ہے اور غور متامل کرکے نصیحت پکڑ نے کا اس کو موقع ہوتا ہے ۔ بالغ ہونے کے بعد نماز اور دوسرے فرائض کو ترک کرنے کا کوئی معقول عذر نہیں ہوسکتا۔ خصوصا ایمان نہ لانے کا تو کوئی عذرہوہی نہیں سکتا ۔ اگر یہ مطلب آیت کا نہ مان جائے تو پھر قیامت کے دن اللہ کی طرف سے اس جواب کے مخاطب تو صرف وہی نہیں سکتا ۔ اگر یہ مطلب آیت کا نہ مانا جائے تو پھر قیامت کے دن اللہ کی طرف سے اس جواب کے مخاطب تو صرف وہی کا فرقرار پائیں گے جن کی عمر ساٹھ برس ہوئی ہو، دوسرے کم عمر مخاطب ہی نہیں قرار پائیں گے۔ ، وجاء کم النذیر، اس سے مراد حضرت محمد ﷺ ہیں ۔ یہی اکثر مفسرین کا قول ہے ۔ بعض علماء کے نزدیک عقل مراد ہے ۔ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو تنہا عقل کو وجوب ایمان کے لیے کافی سمجھتے ہیں ، ان لوگوں کے نزدیک اگر کوئی عاقل پہاڑ کی چوٹی پر (تمام انسانوں سے الگ تھلگ) ہو اور نبی کی دعوت اس کونہ پہنچی ہو، تب بھی وہ اللہ پر ایمان لانے کا مکلف ہے۔ اگر اللہ کو نہیں مانے گا تو اس کو کافرقرار دیاجائے گا۔ ، فذوقوافما للظالمین من نصیر،
Top