Tafseer-e-Baghwi - Al-Hujuraat : 10
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠   ۧ
اِنَّمَا : اسکے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) اِخْوَةٌ : بھائی فَاَصْلِحُوْا : پس صلح کرادو بَيْنَ : درمیان اَخَوَيْكُمْ ۚ : اپنے بھائیوں کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس وہ رجوع لائے تو دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
9 ۔” وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما “ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو کہا گیا اگر آپ عبداللہ بن ابی کے پاس جاتے تو آپ (علیہ السلام) دراز گوش پر سوار ہوکر اس کی طرف چل پڑے اور مسلمان آپ (علیہ السلام) کے ساتھ چلنے لگے اور وہ شورزدہ زمین تھی۔ پس جب نبی کریم ﷺ ان کے پاس آئے تو اس نے کا مجھ سے دور ہٹو، اللہ کی قسم ! مجھے آپ (علیہ السلام) کے گدھے کی بدبو تکلیف دیتی ہے تو انصار میں سے ایک شخص نے کہا اللہ کی قسم حضور ﷺ کا دراز گوش تجھ سے زیادہ عمدہ خوشبو والا ہے تو عبداللہ کی قوم کا ایک شخص غصہ ہوگیا اور آپس میں دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا تو ہر ایک کے ساتھ بھی غصہ ہوگئے تو ان کے درمیان چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مارا ماری ہوئی تو ہمیں خبر پہنچی کہ یہ آیت نازل ہوئی ہے “ وان طائفعان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما “ اور روایت کیا گیا ہے کہ جب یہ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو پڑھا تو ان کی صلح ہوگئی اور ایک دوسرے سے رک گئے۔ قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت انصار کے دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ان دونوں میں کسی حق کی وجہ سے جھگڑا تھا تو ایک نے دوسرے کو کہا میں تجھ سے اپنا حق زبردستی لے لوں گے کیونکہ میرا قبیلہ زیادہ ہے اور دوسرے نے اس کو دعوت دی کہ اللہ کے نبی ﷺ سے فیصلہ کر الیتے ہیں تو اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تو معاملہ ایسے ہی ان کے درمیان چلتا رہا حتیٰ کے وہ لڑپڑے اور ایک دوسرے کو ہاتھوں اور جوتوں سے مارا، کوئی تلوار کے ساتھ حملہ نہیں ہوا۔ سفیان نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ انصار کی ایک عورت تھی جس کو ام زید کہا جاتا تھا، ایک شخص کے نکاح میں تھی۔ اس عورت اور اس کے خاوند میں کچھ جھگڑا تھا تو خاوند نے اس کو گھر میں قید کرلیا۔ اس عورت کی قوم کو یہ خبر پہنچی تو وہ لوگ آگئے۔ ادھر سے مرد کی قوم آگئی تو ہاتھوں اور جوتوں کی لڑائی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما “ اللہ کی کتاب کے فیصلہ کی طرف بلا کر اور اس فیصلہ پر جس میں ان دونوں کی رضامندی ہو۔ ” فان بغت احدھما “ زیادتی کرے ان میں سے ایک ” علی الاخری “ اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ” فقاتلوا التی تبغی حتی تفی “ وہ لوٹے۔ ” الی امر اللہ “ اس کی کتاب اور اس کے حکم کی طرف۔ ” فان فائت “ حی کی طرف لوٹ آئے۔ ” فاصلحوا بینھما بالعدل “ ان دونوں کو انصاف اور اللہ کے حکم پر راضی ہونے پر آمادہ کرنے کے ساتھ۔ ” واقسطوا “ تم انصاف کرو۔ ” ان اللہ یحب المقسطین “
Top