Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 10
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠   ۧ
اِنَّمَا : اسکے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) اِخْوَةٌ : بھائی فَاَصْلِحُوْا : پس صلح کرادو بَيْنَ : درمیان اَخَوَيْكُمْ ۚ : اپنے بھائیوں کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم رحمت کی جائے
اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: یعنی دین و حرمت میں بھائی بھائی ہیں یہ رشتہ نسب میں نہیں اسی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے : دینی اخوت نسبی اخوت سے زیادہ قوی ہے کیونکہ نسبی اخوت دینی مخالفت کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے اور دینی اخوت نسبی مخالفت کے باوجود ختم نہیں ہوتی۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (1) باہم حسد نہ کر باہم بغض نہ کرو جاسوسی نہ کرو خبر معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو کیا باہم بھائو پر بھائو نہ کیا کروبھائی بھائی بنتے ہوئے اللہ کے بندے بن جائو۔ ایک روایت میں ہے کہ ” باہم حسد نہ کیا کرو، بھائو پر بھائو نہ لگایا کرو، باہم بغض نہ کیا کرو، آپس میں دشمنی نہ رکھا کرو تم میں سے کوئی کسی کی خریدو فروخت کے معاہدے پر معاہدہ نہ کرے بھائی بھائی بنتے ہوئے اللہ کے بندے بن جائو۔ “ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو بےیارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ ہی اسے حقییر جانتا ہے تقوی یہاں “ آپ نے تین دفعہ سینہ کی طرف اشارہ کیا ” ایک انسان کے لئے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت حرام ہے “ الفاظ مسلم کے ہیں۔ صحیحین کے علاوہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس پر عیب لگاتا ہے نہ اسے بےیارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ گھر بنانے میں اس کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے کہ اس پر ہوا کو روک دے مگر اس کی اجازت سے ایسا کرتا ہے وہ ہنڈیا کی خوشبو سے اسے اذیت نہیں دیتا مگر اس کے لئے چمچہ پھر سالن بھیجتا ہے اور وہ اپنے بچوں کے لئے پھل نہ خریدے کہ وہ اسے لے کر پڑوسی کے بچوں کے پاس جائیں اور اس میں سے انہیں کوئی چیز نہ دیں “ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : یاد کرلو تم میں سے بہت ہی تھوڑے افراد اسے یاد رکھیں گے۔ “ مسئلہ نمبر 2: یعنی جن دو مسلمان افراد کے درمیان جھگڑا ہے ان میں صلح کرائو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ اوس و خزرج مراد ہیں جس طرح یہ بات پہلے گزر چکی ہے ابو علی نے کہا : اخوین سے مراد دو طائفے ہیں کیونکہ ثنیہ کا لفظ ذکر کیا جاتا ہے اور مراد کثرت ہوتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (المائدۃ 64) ابو عبیدہ نے کہا : یعنی دو بھائیوں کے درمیان مصالحت کر ائو اس کا صدق تمام افراد پر آتا ہے۔ ابن سیرین، نصر بن عاصم، ابو العالیہ، حجدری اور یعقوب نے بین اخوتکم پڑھا ہے حضرت حسن بصری نے اخوانکم پڑھا ہے باقی قراء نے اخویکم یاء کے ساتھ ثنیہ کا صیغہ پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اس آیت اور اس سے قبل والی آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ بغاوت ایمان کے اسم کو زائل نہیں کرتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سرکشی کرنے کے باوجود انہیں اخواہ اور مومنین کا نام دیا ہے حارث اعور نے کہا : حضرت علی شیر خدا ؓ سے جنگ جمل اور جنگ صفین میں شریک افراد کے بارے میں پوچھا گیا جبکہ ان کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے متقدی تھے کیا وہ مشرک ہیں ؟ فرمایا : نہیں وہ شرک سے بھاگے تھے، پوچھا گیا، وہ منافق تھے ؟ فرمایا : نہیں کیونکہ منافق اللہ کا بہت کم ذکر کرتے ہیں : پوچھا گیا : ان کا کیا حال ہے ؟ فرمایا : وہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہم پر بغاوت کی۔
Top