Tafseer-e-Baghwi - Al-Hujuraat : 14
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اِنْ تُطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَا یَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قَالَتِ : کہتے ہیں الْاَعْرَابُ : دیہاتی اٰمَنَّا ۭ : ہم ایمان لائے قُلْ : فرمادیں لَّمْ تُؤْمِنُوْا : تم ایمان نہیں لائے وَلٰكِنْ : اور لیکن قُوْلُوْٓا : تم کہو اَسْلَمْنَا : ہم اسلام لائے ہیں وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ : داخل ہوا ایمان فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ : تمہارے دلوں میں وَاِنْ : اور اگر تُطِيْعُوا : تم اطاعت کروگے اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ : اللہ اور اس کے رسول کی لَا يَلِتْكُمْ : تمہیں کمی نہ کرے گا مِّنْ اَعْمَالِكُمْ : تمہارے اعمال سے شَيْئًا ۭ : کچھ بھی اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے
13 ۔” یایھا الناس انا خلقنا کم من ذکروانثیٰ “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ثابت بن قیس ؓ اور ان کے جگہ نہ دینے والے شخص کو اس کی ماں کی عار دلانے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کس نے فلانی کا تذکرہ کیا ہے ؟ تو ثابت ؓ نے کہا میں نے یارسول اللہ ! تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تو لوگوں کے چہروں کی طرف دیکھ۔ انہوں نے دیکھا تو آپ (علیہ السلام) نے پوچھا اے ثابت ! تونے کیا دیکھا ؟ انہوں نے کہا میں نے سفید، سرخ اور سیاہ چہرے دیکھے ہیں۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا بیشک تو ان سے فضیلت نہیں پاسکتا مگر صرف دین اور تقویٰ میں ۔ پس ثابت ؓ اور اس شخص کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی جس نے جگہ نہ دی تھی۔ ” یایھا الذین امنوا اذ ا قیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوا “ اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ جب فتح مکہ کا دن تھا تو رسول اللہ ﷺ نے بلال ؓ کو حکم دیا وہ کعبہ کی چھت پر چڑھ گئے اور اذان دی۔ تو عتاب بن اسید بن ابی العیص نے کہا تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے میرے والد کی روح قبض کرلی حتیٰ کہ اس نے آج کے دن کا یہ منظر نہیں دیکھا۔ حارث بن ہشام نے کہا کیا محمد ( ﷺ ) کو اس کالے کوے کے علاوہ کوئی موذن نہ ملا تھا اور سہیل بن عمرو نے کہا اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتے ہوں گے تو اس کو تبدیل کردیں گے۔ اور ابوسفیان نے کہا میں کچھ نہیں کہتا اس خوف سے کہ آسمانوں کا رب اس کی خبر دے گا تو جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور رسول اللہ ﷺ کو ان کے اقوال کی خبر دی تو آپ (علیہ السلام) نے ان کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے کیا کہا ہے ؟ انہوں نے اقرار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور نسب پر فخر کرنے اور کثرت مال پر فخر کرنے اور فقراء کو گھٹیا سمجھنے پر ان کو ڈانٹا۔ پس فرمایا ” یایھا لناس انا خلقنا کم من ذکرو انثیٰ “ یعنی آدم وحواء (علیہما السلام) یعنی تم سب نسب میں برابر ہو۔ ” وجعلنا کم شعوبا “ شعب کی جمع ہے شین کی زبر کے ساتھ اور یہ قبائل کی اصل جیسے ربیعہ، مضر، اوس، خزرج وغیرہ ہیں۔ ان کو شعب کا نام دیا گیا اس لئے کہ یہ ادھر ادھر نکلی ہوئی ہیں اور اصل میں جمع بھی ہیں جیسے درخت کی ٹہنیوں کی شاخیں اور شعب اضداد میں سے ہے کہا جاتا ہے شعب یعنی جمع ہوگیا اور شعب یعنی جدا ہوگیا۔ ” و قبائل “ یہ شعوب کے علاوہ ہیں اس کا واحد قبیلہ ہے اور وہ جیسے شیبان ہے بکر سے اور دارم ہے تمیم سے اور عمائر سے کم بطون ہیں اس کا واحد بطن ہے اور وہ جیسے قریش میں سے بنو غالب اور بنولوی اور بطون سے کم افخاذ ہیں اس کا واحد فخذ ہے اور وہ جیسے بنولوی میں سے بنو ہاشم اور بنو امیہ ہیں۔ پھر فصائل اور عشائر اس کا واحد فصیلۃ اور عشیرۃ ہے اور عشیرہ کے بعد کوئی خاندان ایسا نہیں جس کی صفت بیان کی جائے اور کہا گیا ہے کہ شعوب عجم کے اور قبائل عرب کے اور اسباط بنی اسرائیل کے اور ابو ورق (رح) فرماتے ہیں کہ شعوب ان لوگوں کے جو کسی شخص کی طرف نسبت نہیں کرتے بلکہ شہروں اور بستیوں کی طرف نسبت کرتے ہیں اور قبائل وہ عرب جو اپنے آباء کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ ” لتعارفوا “ تاکہ تم ایک دوسرے کو نسب کے قریب اور دور ہونے میں پہچان لو، نہ اس لئے کہ تم ایک دوسرے پر فخر کرو۔ پھر خبر دی کہ ان میں مرتبہ میں بلند ترین اللہ کے ہاں وہ ہے جو ان میں سے زیادہ متقی ہے۔ پس فرمایا ” ان اکرامکم عنداللہ اتقاکم ان اللہ علیم خبیر “ قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں یہ بیان ہے کہ سب سے بڑا اعزاز تقویٰ ہے اور سب سے بڑی ملامت گناہ کرنا ہے۔ حضرت سمرہ جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حسب مال ہے اور کرم تقویٰ ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں دنیا کا کرم مال داری اور آخرت کا کرم تقویٰ ہے۔ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن اپنی اونٹنی پر طواف کیا۔ اپنے نیزے سے ارکان کا استلام کیا۔ جب یہاں سے نکلے تو اونٹنی کے بٹھانے کی جگہ نہ تھی تو آپ (علیہ السلام) لوگوں کے ہاتھوں پر اونٹنی سے اترے، پھر کھڑے ہوئے ، ان کو خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کی اور کہا تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے تم سے عیب اور آباء پر تکبر کرنے کو نکال دیا ہے۔ سوائے اس کے نہیں کہ لوگ تو دوہی قسم کے ہیں ایک نیک، متقی اللہ کے ہاں معزز اور گنہگار، بدبخت اللہ کے ہاں ذلیل۔ پھر آیت ” یایھا الناس انا خلقنا کم من ذکرو انثیٰ “ تلاوت کی ۔ پھر فرمایا ” اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم “ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے کون زیادہ معزز ہے ؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان میں سے اللہ کے ہاں زیادہ معزز ان میں سے زیادہ تقویٰ والا ہے تو انہوں نے کہا اس کے بارے میں ہم آپ (علیہ السلام) سے نہیں پوچھ رہے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ” اکرم الناس “ یوسف (علیہ السلام) اللہ کے نبی، اللہ کے نبی کے بیٹے، وہ اللہ کے نبی کے بیٹے، وہ اللہ کے نبی خلیل اللہ کے بیٹے تو انہوں نے کہا اس کے بارے میں ہم نہیں پوچھ رہے ۔ آپ (علیہ السلام) نے پوچھا عرب کے قبائل کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو ؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تم میں سے جاہلیت میں بہترین لوگ اسلام میں بھی بہترین لوگ ہیں۔ جب وہ دین کی سمجھ رکھیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتے لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں۔
Top