Tafseer-e-Baghwi - Al-Hujuraat : 15
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ
اِنَّمَا : اسکے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول ثُمَّ : پھر لَمْ يَرْتَابُوْا : نہ پڑے شک میں وہ وَجٰهَدُوْا : اور انہوں نے جہاد کیا بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانوں سے فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی راہ میں اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الصّٰدِقُوْنَ : سچے
اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ) یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم خدا اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو گے تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
14 ۔” قالت الاعراب امنا “ یہ آیت بنو اسدسن خزیمہ کے چند لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں قحط سالی کے سال آئے اور اسلام کو ظاہر کیا اور اندر سے ایمان نہ لاتے تھے تو ان لوگوں نے مدینہ کے راستے گندگیوں سے خراب کردیئے اور اناج کا بھائو بڑھا دیا اور صبح وشام رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے اور کہتے کہ عرب آپ (علیہ السلام) کے پاس اپنی سواریوں پر تنہا آتے ہیں، ہم آپ (علیہ السلام) کے پاس اناج، عیال اور لونڈیاں لائے ہیں اور ہم نے آپ (علیہ السلام) سے قتال بھی نہیں کیا جیسے کہ بنو فلاں اور بنو فلاں نے قتال کیا۔ وہ نبی کریم ﷺ پر احسان جتاتے تھے اور صدقہ کا ارادہ رکھتے تھے اور کہتے تھے ہمیں کچھ دیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل کی اور سدی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ ان بدئوں کے بارے میں نازل ہوئی جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة الفتح میں کیا اور وہ جہینہ، مزینہ، اشجع، اسلم اور غفار کے بدو ہیں۔ وہ کہتے تھے ہم ایمان لائے تاکہ وہ ہم سے اپنے مال اور جانوں پر مطمئن ہوجائیں۔ پس جب ان سے حدیبیہ کی طرف کوچ کا مطالبہ کیا گیا تو یہ پیچھے رہ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ” قالت الاعراب امنا “ ہم نے تصدیق کی۔ ” قل لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا “ ہم تابع ہوگئے اور قتل اور قید کے خوف سے ہم نے سرجھکا لیا۔ ” ولما یدخل الایمان فی قلوبکم “ پس خبر دی کہ ایمان کی حقیقت دل سے تصدیق کرنا ہے اور بیشک زبان سے اقرار کرنا اور بدن سے اس کی شرائع کو ظاہر کرنا، دل سے تصدیق اور اخلاص کے بغیر ایمان نہیں ہوتا۔ عامر بن سعد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جماعت کو کچھ دیا اور میں بھی ان میں بیٹھا تھا۔ آپ (علیہ السلام) نے اس جماعت میں ایک شخص کو چھوڑ دیا، اس کو کچھ نہ دیا حالانکہ وہ ان سب میں مجھے زیادہ اچھا لگتا تھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سرگوشی کی اور کہا آپ (علیہ السلام) کا فلاں کے ساتھ کیا معاملہ ہوا حالانکہ میں تو اس کو مومن سمجھتا ہوں یا کہا مسلمان سمجھتا ہوں۔ پھر آپ (علیہ السلام) نے کچھ دیر سکوت فرمایا۔ پھر مجھے اس کے سارے میں میرا علم غالب آگیا، میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! (ﷺ ) آپ کا فلاں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ پس اللہ کی قسم ! میں تو اس کو مومن سمجھتا ہوں یا کہا مسلمان سمجھتا ہوں پھر آپ (علیہ السلام) نے تھوڑی دیر سکوت فرمایا۔ پھر مجھے اس کے بارے میں میرا علم غالب ہوا تو میں نے کہا یارسول اللہ آپ کا فلاں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ پس اللہ کی قسم ! میں تو اس کو مومن دیکھتا ہوں یا کہا مسلمان دیکھتا ہوں۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا بیشک ! میں کسی شخص کو کچھ دیتا ہوں حالانکہ اس کا غیر مجھے زیادہ پسند ہوتا ہے اس خوف سے کہ وہ اپنے منہ کے بل جہنم میں گرادیاجائے۔ پس اسلام سلم میں داخل ہونا اور وہ تابعداری اور اطاعت کرنا ہے۔ کہا جاتا ہے اسلم الرجل جب وہ سلامتی میں داخل ہوجائے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ” اشتی الرجل “ جب وہ سردیوں میں داخل ہوجائے اور اصاف جب وہ گرمیوں میں داخل ہوجائے اور اربع جب وہ بہار میں داخل ہوجائے۔ پس اسلام میں سے وہ ہے جو حقیقت میں زبان، بدن اور دل کے ساتھ طاعت ہو جیسے اللہ تعالیٰ کا قول ابراہیم (علیہ السلام) کو ” اسلم قال اسلمت لرب العالمین “ اور اس میں سے وہ ہے جو صرف زبان سے تابعدار ہو نہ کہ دل سے اور یہ اللہ تعالیٰ کا قول ” ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم “ ” وان تطیعوا اللہ ورسولہ “ ظاہراً و باطناً ، اعلانیہ اور پوشیدہ۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ تم سے کچھ کم نہ کرے گا۔ کہا جاتا ہے ” التیالت التا “ اور لاتیلیت لیتاً جب کم ہوجائے۔ ” من اعمالکم شیئا “ یعنی تمہارے اعمال کے ثواب میں سے کچھ کم نہ کرے گا۔ ” ان اللہ غفور رحیم “ پھر ایمان کی حقیقت کو بیان کیا۔
Top