Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 10
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : اور جن لوگوں نے کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیتیں اُولٰٓئِكَ : یہی اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : جہنم والے
اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔
آیت نمبر 11, 10 تفسیر : (والذین کفروا وکذبوا بایتا اولتک الجحیم) ( اور جن لوگوں نے کفر کیا اور جھٹلائیں ہماری آیتیں وہ ہیں دوزخ والے) (یایھا الذین امنوا اذکرو انعمت اللہ علیکم ) ( اے ایمان والو ! یاد رکھو احسان اللہ کے اپنے اوپر) جو تم سے دشمن کو ہٹا کر احسان کیا۔ ( اذھم قوم ان یبسطوا الیکم ایدیھم) (جب قصد کیا لوگوں نے کہ تم پر ہاتھ چلادیں) قتل کے ساتھ۔ اذھم قوم ان یبسطوا کا شان نزول اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ بطن نخل میں تھے تو بنو ثعلبہ اور بنو محارب نے ارادہ کیا کہ حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ جب نماز میں م شغول ہوں تو ان کو قتل کردیں گے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو اس ارادہ پر مطلع کردیا اور خوف کی نماز کا حکم نازل کیا۔ اور حسن (رح) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بنو غطفان کا نخل مقام پر محاصرہ کیا ہوا تھا تو مشرکین میں سے ایک آدمی نے کہا کیا تمہیں یہ گوارا ہے کہ میں محمد کو قتل کردوں ؟ انہوں نے کہا تو ان کو کیسے قتل کرے گا ؟ اس نے کہا میں ان کو غفلت میں قتل کردوں گا۔ انہوں نے کہا ہم دل سے چاہتے ہیں کہ تو اس کام کو کرلے تو وہ شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور نبی کریم ﷺ اپنی تلوار کو لٹکائے ہوئے تھے تو اس نے کہا اے محمد ! (ﷺ) مجھے اپنی تلوار دکھائیے تو آپ (علیہ السلام) نے اس کو وہ تلوار دے دی تو وہ آدمی اس تلوار کو حرکت دینے لگا اور کبھی تلوار کی طرف دیکھتا اور کبھی نبی کریم ﷺ کی طرف دیکھتا اور کہنے لگا کہ کون آپ کو مجھ سے بچائے گا۔ اے محمد ! آپ (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ ! تو صحابہ کرام ؓ نے اس کو ڈرایا، اس نے تلوار پھینکی اور چلا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور مجاہد ، عکرمہ، کلبی اور ابن یسار رحمہما اللہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منذر بن عمرو الساعدی کو بھیجا۔ یہ منذر بیعت عقبہ کے افراد میں سے ایک ہیں۔ ان کو حضور ﷺ نے تیس انصار اور مہاجرین سواروں کا امیر بناکر بنو عامر بن صبعصعہ کی طرف بھیجا تو یہ حضرات جب مدینہ سے نکلے تو ان کی ملاقات عامر بن الطفیل سے بیئر معونہ پر ہوئی۔ یہ بنو عامر کا ایک کنواں ہے ان کی آپس میں لڑائی ہوئی تو حضرت منذر ؓ اور ان کے سب ساتھی شہید ہوگئے ، صرف تین آدمی بچے جو ایک گمشدہ اونٹ کو تلاش کرنے گئے ہوئے تھے۔ ان تین میں ایک عمرو بن امتۃ الضمری ؓ تھے۔ ان حضرات نے پرندوں کو آسمان میں چکر لگاتے دیکھا۔ ان کی چونچوں سے خون کے لوتھڑے کررہے تھے تو اس منظر نے ان کو خوفزدہ کیا تو ان تین میں سے ایک نے کہا کہ ہمارے ساتھی شہید کردیئے گئے ہیں۔ پھر ان صاحب نے پیٹھ پھیری اور دوڑے حتیٰ کہ ایک آدمی سے مڈبھیڑ ہوئی ، دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا۔ پس جب ان صحابی ؓ کو تلوار لگی تو انہوں نے سرآسمان کی طرف بلند کیا اور اپنی آنکھیں کھول کر کہا اللہ اکبر ! جنت اور تمام جہانوں کا رب۔ باقی دو حضرات واپس لوٹے تو ان کی ملاقات قبیلہ بنو سلیم کے دو آدمیوں سے ہوئی۔ نبی کریم ﷺ اور بنو سلیم کے درمیان صلح کا معاہدہ تھا۔ یہ دو صحابی ان کو بنو عامر کا فرد سمجھے اور ان کو قتل کردیا تو ان کی قوم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور دیت کا مطالبہ کیا تو آپ (علیہ السلام) حضر ابوبکر ، حضرت عمر، عثمان، علی، طلحہ، عبدالرحمن بن عوف ( ؓ ) کے ساتھ نکلے اور کعب بن اشرف اور بنو نضیر کے پاس گئے۔ ان سے دیت کی ادائیگی میں مدد لینے کیونکہ بنو نضیر کا حضور ﷺ سے یہ معاہدہ تھا کہ ہم قتال نہیں کریں گے اور دیت کی ادائیگی میں مدد کریں گے تو انہوں نے کہا کہ اے ابو القاسم ! (ﷺ) آپ (علیہ السلام) پر ایسا وقت آگیا ہے کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور اپنی ضرورت کا سوال کیا آپ تشریف رکھیں ہم آپ (علیہ السلام) کو کھانا کھاتے ہیں اور آپ (علیہ السلام) کو وہ رقم دیتے ہیں جو آپ (علیہ السلام) نے مانگی تو آپ (علیہ السلام) اور صحابہ کرام ؓ بیٹھ گئے تو وہ یہودی ایک دوسرے سے سرگوشی کرنے لگے کہ محمد ﷺ کو آج کے دن سے زیادہ قریب تم نہیں پائو گے۔ پس کوئی ہے جو اس مکان کی چھت پر چڑھ جائے اور ان پر پتھر کی چٹان گرا کر ہم کو ان سے راحت دے ؟ تو عمر بن حجاش نے کہا میں ! تو وہ ایک بڑی چکی کو لایا تاکہ اس کو حضور ﷺ پر پھینک دے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ہاتھ روک دیا اور جبرئیل (علیہ السلام) نے آکر آپ (علیہ السلام) کو خبر دی تو حضور ﷺ مدینہ کی طرف لوٹے اور حضرت علی ؓ کو بلایا کہ آپ ؓ اسی جگہ کھڑے رہو اور صحابہ کرام ؓ میں سے جو بھی آئے اور میرے بارے میں سوال کرے تو آپ کہنا کہ مدینہ کی طرف گئے ہیں تو حضرت علی ؓ نے ایسا کیا یہاں تک کہ سب صحابہ کرام ؓ حضور ﷺ تک پہنچ گئے اور آپ (علیہ السلام) کے پیچھے چل پڑے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور فرمایا (فکف ایدیھم …المومنون) (پھر روک دیئے تم سے ان کے ہاتھ اور ڈرتے رہو اللہ سے اور اللہ ہی پر چاہیے بھروسہ ایمان والوں کو)
Top