Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 36
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : اور جن لوگوں نے کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیتیں اُولٰٓئِكَ : یہی اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : جہنم والے
ہاں ! جن لوگوں نے (حق بات کا) انکار کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو وہ لوگ دوزخی ہیں
اللہ کی آیتوں کو جھٹلانے والوں کو عذاب دوزخ کی وعید بھی وعدہ الٰہی ہے : 58: معاندین و مشرکین جو اپنے عناد اور شرک ہی پر مرے اور ان کو اس دنیا میں توبہ نصیب نہ ہوئی اور مرنے کے بعد جب ان کے عمل اور توبہ و استغفار کا دروازہ بند ہوگیا تو ان پو وعید الٰہی کا وعدہ لازم آگیا اور تخلف وعدہ محال ایسا نہیں ہو سکتا کہ اب ان کے اللہ تعالیٰ بلا حساب جنت میں داخل کردے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ کہنا کر وہ ایسا نہیں کرے گا یا ایسا نہیں ہو سکتا نہ گناہ ہے نہ حرام بلکہ یہ اس کا کہا ہوا دہرایا جاتا ہے کہنے والا اپنی طرف سے نہیں کہتا اور یہ بھی کہ اس طرح کہنا اللہ کی چاہت کے ہرگز منافی نہیں بلکہ اعلان الٰہی کو ایک طرح کا بیان کرنا ہے اور اس قادر مطلق کا کہا ہوا گناہ کیونکر ہوا ؟ کیا اللہ گناہ کی باتیں کہتا ہے ؟ اپنی ضرورت کے لئے ” قدرت “ کا دروازہ کھولنے والوں کو خود غور کرنا چاہئے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اس نے فرمایا ہے کہ ” اللہ ہرچیز پر قادر ہے “ ’۔ اس نے ہر ایک چیز کے لئے ایک اندازہ مقرر کردیا ہے جو کبھی خطا نہیں ہوتا۔ ” اللہ ہرچیز پر قادر ہے “ اس لئے اس نے اپنی قدرت کا ملہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں ” وعدہ کا خلاف نہیں کرتا “ یہ بات اس سے کسی ایرے غیرے نے نہیں کہلوائی اگر اس نے یہ نہ فرمایا ہوتا تو بھی ہمارا ایمان ہے کہ وہ کبھی وعدہ خلافی نہ کرتا پھر جب اس نے خود کہہ دیا ہے تو آپ کو اس سے اس کا اختیار مجروح ہوتا کیوں نظر آتا ہے ۔ دراصل آپ نے اس دنیا کے جھوٹے بادشاہوں کو دیکھا ایک وقت میں وہ ایک بات کہتے ہیں اور دوسرے وقت میں خود ہی اس کا خلاف کرتے اور کہتے ہیں پھر آپ دیکھتے ہیں کہ ان کو کوئی پوچھنے ولا نہیں اس لئے کہ وہ صاحب اقتدار ہیں جو انہوں نے پہلے کہا وہ ان کی مرضی تھی اور جو انہوں نے بعد میں کیا وہ بھی ان کی مرضی اس لئے آپ کو یہ خیال آتا ہے کہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے پھر وہ اپنے وعدے کا پابند کیوں ؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کے جھوٹے بادشاہوں کا خوف آپ کو دبائے ہوئے ہے اس لئے آپ ان کو جھوٹا کہنے کی بجائے نہایت سچے احکم الحاکمین کو جھٹلانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور یہ ذہن کا پھیر آپ کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اٹھیں ان جھوٹے بادشاہوں کا خوف دل سے نکالیں ان کے جھوٹ کو برملا جھوٹ کہیں اور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کو جھوٹا قرار دیں۔ اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تو انشاء اللہ یہ مسئلہ بھی آپ کی سمجھ میں آجائے گا ورنہ آپ وہی راگنی کا راگ الاپتے رہیں گے جو آپ سے پہلے کسی نے الاپا اور اس کا الاپا ہوا آپ نے یاد کرلیا۔ یاد رکھو کہ اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے کتنے ہی و ڈیرے کیوں نہ ہوئے ، کتنے ہی صاحب اقتدار کیوں نہ ہوئے ، کتنے ہی صاحب جائیداد کیوں نہ ہوئے ، کتنے ہی لاؤ لشکر کے مالک کیوں نہ ہوئے ، کتنی ہی رساستوں کے حکمران کیوں نہ ہوئے ، اس دنیا میں کتنے ہی صاحب عزت کیوں نہ ہوئے وہ اپنے قانوں کے مطابق اس طرح دوزخ میں ان کو پھینک دے گا جس طرح ترکش میں ڈالا ہوا تیز پھینکا جاتا ہے اور پھر ارشاد فرمایا ہے : ذُقْ 1ۙۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْكَرِیْمُ 0049 (الدخان 44 : 49)
Top