Tafseer-e-Baghwi - An-Najm : 2
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ
مَا ضَلَّ : نہیں بھٹکا صَاحِبُكُمْ : ساتھی تمہارا وَمَا غَوٰى : اور نہ وہ بہکا
تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے
نجم کی تفسیر 1 ۔” والنجم اذاھویٰ “ ابن عباس ؓ نے والبی اور عوفی رحمہما اللہ کی روایت میں فرمایا ہے کہ یعنی ثریا جب گرجائے اور غائب ہوجائے اور اس کا ھویٰ اس کا چھپ جانا ہے اور عرب ثریا کا نام نجم رکھتے ہیں اور ابوہریرہ ؓ سے حدیث مرفوع میں آیا ہے نہیں طلوع ہوا نجم کبھی اور زمین میں کوئی آفت ہو مگر وہ اٹھالی جاتی ہے اور نجم سے ثریا مراد لیا ہے۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں آسماں کے تمام ستارے مراد ہیں جب غروب ہوجائیں۔ اس کا لفظ واحد ہے اور معنی جمع کا ہے ۔ کوکب کا نام نجم رکھا گیا ہے اس کے طلوع ہونے کی وجہ سے اور ہر طلوع ہونے والا نجم ہے۔ کہا جاتا ہے ” نجم السن والقرن والنبت “ جیسے دانت، سینگ اور نباتات طلوع ہوجائیں۔ عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ ستاروں کی مار ہے یعنی شیطانوں کی بات چوری کرتے وقت جن ستاروں کے ذریعے ان کو مارا جاتا ہے اور ابوحمزہ ثمانی (رح) فرماتے ہیں وہ ستارے ہیں جب قیامت کے دن ٹوٹ جائیں گے اور کہا گیا ہے کہ نجم سے مراد قرآن ہے اس کا نام نجم رکھا گیا ہے اس لئے کہ وہ متفرق حصوں (قسطوں) میں بیس سال میں نازل ہوا ہے اور کسی چیز کے جدا کرنے کو تنجیم کا نام اور جدا کی ہوئی چیز کو منجم کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ عطائؒ کی روایت میں اور کلبی (رح) کا قول ہے اور الھویٰ اوپر سے نیچے اترنا۔ اخفش (رح) فرماتے ہیں نجم وہ پودہ جس کا تنا نہ ہو اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا قول ” والنجم والشجر یسجدان “ ہے اور اس کا ھویٰ اس کا زمین پر گرا ہونا ہے اور جعفر صادق (رح) فرماتے ہیں یعنی محمد ﷺ جب آسمان سے زمین کی طرف اترے معراج کی رات۔ اور ” الھوی “ اترنا ۔ کہاجاتا ہے ” ھویٰ یھویٰ ھویا “ جب وہ اتر آئے جیسے مفیٰ ” یمضی مضیا “۔
Top