Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 2
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ
مَا ضَلَّ : نہیں بھٹکا صَاحِبُكُمْ : ساتھی تمہارا وَمَا غَوٰى : اور نہ وہ بہکا
تمہارا ساتھی نہ تو بھٹکا ہے نہ بہکا ہے
[ 3] صاحبکم کے لفظ کی بلاغت و تاثیر کا ذکر وبیان : سو اس لفظ اور اس کی ترکیب سے واضح فرما دیا گیا کہ جس کی پوری زندگی، اور زندگی کی ہر حالت، تمہارے سامنے ہے، اور ایک کھلی کتاب کی طرح تمہارے سامنے ہے، بچپن سے لڑکپن، اور لڑکپن سے جوانی، اور جوانی کے بعد کی پوری حیات طیبہ تمہارے سامنے ہے، اور اس طور پر کہ اس کا کوئی مرحلہ بھی تم سے مخفی اور تمہاری نگاہوں سے اوچھل اور پوشیدہ نہیں، اور تم خود ان کی صداقت، اور ان کی امانت و دیانت داری کے قائل اور معترف ہو، اور ان کو تم لوگ خود صادق و امین مانتے ہو، اور ان کی نزاہت و پاکیزگی کے تم لوگ خود عینی شاہد اور کھلے گواہ ہو، تو جب چالیس سال کی طویل زندگی میں، تم ان پر کسی بھی طرح کی کوئی حرف گیری نہیں کرسکے، بلکہ ان کو صادق و امین تسلیم کرنے پر تم لوگ خود مجبور رہے ہو، تو پھر یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ اس قدر عمر گزارنے کے بعد وہ یکایک ایسی بات کہہ دیں جو حق اور حقیقت کے خلاف ہو ؟ سو " صاحبکم " کے ارشاد سے یہ سب ہی امور معلوم و مستفاد ہوتے ہیں، سبحان اللّٰہ ! اس کتاب حکیم کا لفظ لفظ ایک دفتر کی حیثیت رکھتا ہے، پس " صاحبکم " کے لفظ کے یہاں پر استعمال میں بڑی بلاغت اور خاص تاثیر پائی جاتی ہے، اور ایسی اور اس حد تک کہ اگر صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیا جائے تو سارا معاملہ ہی صاف ہوجاتا ہے۔ کسی حیل و حجت اور قیل و قال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، سوائے ان لوگوں کے جو عناد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہوں، کہ ایسوں کا کوئی علاج نہیں ہے، کہ عناد اور ہٹ دھرمی کا مرض ایک لا علاج مرض ہے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ بہرکیف اس لفظ کے استعمال سے واضح اور مستور ہوں اور ان کے اخلاق و کردار کی کوئی حالت اور کیفیت تم لوگوں سے مخفی نہیں۔ [ 4] پیغمبر ( علیہ السلام) سے ضلالت وغوایت دونوں کی نفی کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تمہارے یہ ساتھی نہ بہکے نہ بھٹکے۔ یعنی نہ تو انہوں نے راہ حق سے قدم باہر رکھا اور نہ ہی کبھی کسی باطل کا کوئی عقیدہ رکھا، نہ علم کے اعتبار سے کوئی غلطی کی اور نہ عمل کے لحاظ سے، بلکہ ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے جادہ حق اور صراط مستقیم ہی پر گامزن رہے۔ ﷺ ۔ پس گمراہی میں داخل وہی بدنصیب لوگ ہیں، جو اس نبی برحق کے پیش کردہ دین حق کی تکذیب کرتے اور اس سے منہ موڑتے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ " ضل " کا استعمال عام طور پر انسان کی اس گمراہی کے لئے ہوتا ہے جس کا تعلق انسان کی بھول چوک یا فکر و اجتہاد کی غلطی سے ہو، جب کہ غوری کا تعلق بالعموم انسان کی اس گمراہی سے ہوتا ہے جس میں نفس کی اکساہٹ اور انسان کے قصد و تعمد کا بھی دخل ہوتا ہے، سو اس ارشاد کے ذریعے حضور ﷺ سے ان دونوں چیزوں کی نفی فرما دی گئی، نہ تو آپ ﷺ نے کبھی فکر و اجتہاد کی غلطی کی بناء پر راہ حق و صواب سے باہر قدم رکھا، اور نہ ہی آپ ﷺ نے کبھی کسی باطنی اکساہٹ یا کسی طرح کے قصد و تعمد کی بنا پر کبھی ایسی کوئی لغزش کھائی، کہ آپ ﷺ قدرت کی حفاظت و عنایت اور فضل و کرم سے ایسی کسی طرح کی ضلالت وغوایت کا کوئی شائبہ تک نہیں، آپ ﷺ کی حیات مبارکہ، اور آپ کا فرمودہ کلام صدق نظام دونوں اس بات کے شاہد صدق ہیں، کہ آپ ﷺ کے اندر کسی طرح کی ضلالت وغوایت کا کوئی شائبہ تک نہیں اور آپ ﷺ جو کچھ کہتے اور فرماتے ہیں وہ سراسر حق و صدق اور عقل و فکر کے تقاضوں کے عین مطابق ہے بشرطیکہ کسی کی عقل مسخ اور اس کی فطرت اوندھی نہ ہوچکی ہو۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے راہ حق ہی پر ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top