Tafseer-e-Baghwi - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں بیشک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے وہ تم کو خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے تو اپنے آپ کو پاک صاف نہ جتاؤ جو پرہیزگار ہے وہ اس سے خوب واقف ہے
32 ۔” پھر ان کا وصف بیان کیا اور فرمایا ” الذین یجتنبون کبائر الاثم والفواحش الااللمم “۔ الا اللمم کی تفسیر میں مختلف اقوال اس آیت کے معنی میں اختلاف ہوا ہے۔ ایک قوم نے کہا ہے کہ یہ استثناء صحیح ہے اور ” اللمم “ کبائر اور فواحش میں سے ہے اور آیت کا معنی یہ ہے کہ مگر یہ کہ وہ کسی فاحشہ کا ارتکاب کرلے، ایک مرتبہ پھر توبہ کرلے اور پھر باز آجائے اور یہ ابوہریرہ ؓ ، مجاہد اور حسن رحمہما اللہ کا قول ہے اور عطاء کی ابن عباس ؓ سے روایت ہے عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ فرماتے ہیں ” اللمم “ جو شرک سے کم ہو۔ سدی اور ابو صالح رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کے قول ” الا اللمم “ کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے کہا وہ آدمی جو گناہ کا ارتکاب کرے، پھر دوبارہ وہ گناہ نہ کرے۔ پس میں نے یہ بات ابن عباس ؓ کو ذکر کی تو انہوں نے فرمایا تحقیق تیری اس پر معزز فرشتے نے مدد کی ہے اور عطاء نے ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول ” الا اللمم “ کے بارے میں کہ تو کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تو معاف کردے اے اللہ ! تو سب کو معاف کردے اور کون سا بندہ تیرے لئے ہے مگر ” الما “ اور ” اللمم “ اور المام کی اصل جو انسان عمل کرے وقتاً فوقتاً اور اس کا اعادہ نہ کرے اور اس پر ڈٹ نہ جائے اور دیگر حضرات نے کہا ہے کہ یہ استثناء منقطع ہے۔ مجاز عبارت ہوگی ” لکن اللمم “ اور ان حضرات نے ” اللمم “ کو کبائر اور فواحش میں نہیں بنایا۔ پھر ان کا اس کے معنی میں اختلاف ہوا ہے۔ پس ان میں سے بعض نے کہا کہ جو جاہلیت میں گزر چکا اللہ تعالیٰ اس پر مواخذہ نہ کریں گے کیونکہ مشرکین نے مسلمانوں کو کہا تھا تم پہلے ہمارے ساتھ یہی کام کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ اور یہ زید بن ثابت ؓ اور زید بن اسلم (رح) کا قول ہے اور ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ یہ صغیرہ گناہ ہیں جیسے ایک مرتبہ دیکھ لینا اور ہاتھ لگالینا اور بوسہ دین جو زنا کے علاوہ ہو اور یہ ابن مسعود، ابوہریرہ ؓ مسروق اور شعبی رحمہم اللہ کا قول ہے اور طائوس کی ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میں نے اس سے زیادہ ” اللمم “ مشابہہ کسی چیز کو نہیں دیکھا جو ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ابن آدم کا زنا کا حصہ لکھ دیا ہے وہ اس کو پائے گا لامحالہ۔ پس آنکھ کا زنا نظر کرنا ہے اور زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا و خواہش کرتا ہے اور فرج (شرم گاہ) اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے اور ابوہریرہ ؓ سے دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آنکھیں ان کا زنا دیکھنا ہے اور کان ان کا زنا توجہ سے سننا ہے اور زبان اس کا زنا بات کرنا ہے اور ہاتھ ان کا زنا پکڑنا ہے اور پائوں ان کا زنا چلنا ہے۔ اورکلبی (رح) فرماتے ہیں ” اللمم “ دو صورتوں پر ہے۔ ہر وہ گناہ جس پر دنیا میں اللہ تعالیٰ نے حد ذکر نہ کی ہو اور آخرت میں عذاب نہ ذکر کیا ہو۔ پس یہ وہ گناہ ہیں جن کو نمازیں مٹادیتی ہیں جب تک کبائر اور فواحش تک نہ پہنچیں اور دوسری صورت بڑا گناہ جس کا مسلمان کئی مرتبہ ارتکاب کرے پھر اس سے توبہ کرلے۔ سعید بن مسیب (رح) فرماتے ہیں یہ وہ گناہ ہے جو دل میں کھٹکے اور حسین بن فضل (رح) فرماتے ہیں ” اللمم “ بغیر ارادہ کے ایک مرتبہ دیکھنا۔ پس یہ معاف ہے۔ پس اگر نگاہ کو دوبارہ ڈالتا ہے تو یہ لمم نہیں بلکہ گناہ ہے۔ ” ان ربک واسع المغفرۃ “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس کے لئے جس نے یہ کیا اور توبہ کی۔ یہاں کلام مکمل ہوگئی۔ پھر فرمایا ” ھو اعلم بکم اذانشاء کم من الارض “ یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا۔ ” واذ انتم اجنۃ “ جنین کی جمع ہے۔ اس کا نا جنین رکھا گیا ہے۔ اس کے پیٹ میں چھپے ہونے کی وجہ سے۔ ” فی بطون امھا تکم فلا تزکو انفسکم “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں تم اپنی مدح نہ کرو۔ حسن (رح) فرماتے ہیں اللہ خوب جانتے ہیں ہر نفس کے بارے میں کہ وہ کیا کرنے والا ہے اور کس طرح لوٹنے والا ہے۔ ” فلا تزکوا انفسکم “ یعنی تم ان کو گناہوں سے بری قرار نہ دو اور اپنے اچھے اعمال پر خود کی تعریف نہ کرو۔ کلبی اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں لوگ اچھے اعمال کرتے تھے پھر کہتے تھے ہماری نماز اور ہمارا روزہ اور ہمارا حج اور ہمارا جہاد تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ ” ھواعلم بمن اتقی ، یعنی نیک کی اور اطاعت کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کو خالص کیا۔
Top