Tafseer-e-Baghwi - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں هُوَ : وہ الْقَادِرُ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّبْعَثَ : بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابًا : عذاب مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر اَوْ : یا مِنْ : سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِكُمْ : تمہارے پاؤں اَوْ يَلْبِسَكُمْ : یا بھڑا دے تمہیں شِيَعًا : فرقہ فرقہ وَّيُذِيْقَ : اور چکھائے بَعْضَكُمْ : تم میں سے ایک بَاْسَ : لڑائی بَعْضٍ : دوسرا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَفْقَهُوْنَ : سمجھ جائیں
کہ دو کہ وہ (اس پر بھی) قدرت رکھتا یے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کر دے اور ایک کو دوسرے (سے لڑا کر آپس) کی لڑائی کا مزا چکھا دے دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں
(65) (قل ھو القادر علی ان یبعت علیکم عذاباً من فوقکم) حسن اور قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ آیت اہل ایمان کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ایک جماعت نے کہا کہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ عذاباً من فوقکم یعنی چیخ، پتھر، ہوائیں اور طوفان جیسے قوم عاد، ثمود اور قوم لوط اور قوم نوح کے ساتھ کیا ہے۔ (اومن تحت ارجلکم) یعنی زلزلے اور دھنسا دینا جیسے شعیب کی قوم اور قارون کے ساتھ کیا۔ ابن عباس ؓ، مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ اوپر سے عذاب ظالم حکمران اور نیچے سے عذاب برے غلام (اویلبسکم شیعاً ) یعنی تم میں مختلف فرقے ملا دے اور تم میں مختلف خواہشات پھیلا دے ۔ (ویذیق بعضکم باس بعض) یعنی تم ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔ قل ھو القادر آیت کے نزول پر آپ ﷺ کا تعوذ پڑھنا حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذاباً من فوقکم “ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! میں تیری کریم ذات کی پناہ میں آتا ہوں۔ پھر پڑھا ” او من تحت ارجلکم “ تو فرمایا میں تیری ذات سے پناہ مانگتا ہوں۔ پھر پڑھا ” اویلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض “ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ آسان ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی امت کے حق میں تین دعائیں مانگیں دو قبول کردی گئیں ایک نہیں عامر بن سعد بن وقاص اپنے والد سعد بن ابی وقاص ؓ سے رویات کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بنو معاویہ کی ایک مسجد سے گزرے تو آپ (علیہ السلام) اس مسجد میں داخل ہوئے اور آپ (علیہ السلام) نے دو رکعتیں پڑھیں اور ہم نے بھی آپ (علیہ السلام) کے ساتھ پڑھیں تو آپ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے بڑی لمبی دعا کی۔ پھر فرمایا، میں نے اپنے رب سے تین دعائیں مانگیں۔ میں نے دعا مانگی کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے قبول کرلیا ور میں نے یہ دعا مانگی کہ میری امت کو قحط سے نہ ہلاک کرے تو یہ بھی مجھے دے دی اور میں نے یہ دعا مانگی کہ میری امت کی آپس میں لڑائی نہ ہو تو اس سے منع کردیا۔ سلیمان بن بلال (رح) سے روایتہے کہ عبید اللہ بن عمر ؓ ان کے پاس آئے اور یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد میں تین دعائیں ماگنی ہیں۔ دو قبول ہوئیں ایک قبول نہیں ہوئی۔ یہ دعا کی کہ اللہ میری امت پر ان کے علاوہ کوئی ایسا دشمن نہ مسلط کر دے جو ان پر غالب ہو یہ قبول ہوئی اور یہ دعا کی کہ ان کو قحط سے نہ ہلاک کرے یہ قبول ہوئی اور یہ دعا کی کہ ان کی آپس میں لڑائی نہ ہو تو یہ قبول نہیں ہوئی۔ (انظر کیف نصرف الایت لعلھم یفقھون)
Top