Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 190
فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا١ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اٰتٰىهُمَا : اس نے دیا انہیں صَالِحًا : صالح بچہ جَعَلَا : ان دونوں نے ٹھہرائے لَهٗ : اس کے شُرَكَآءَ : شریک فِيْمَآ : اس میں جو اٰتٰىهُمَا : انہیں دیا فَتَعٰلَى : سو برتر اللّٰهُ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
جب وہ ان کو صحیح وسالم (بچہ) دیتا ہے تو اس (بچے) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اسکا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں خدا (کا رتبہ) اس سے بلند ہے۔
تفسیر اور بعض نے کہا کہ آیت میں یہود و نصاریٰ مراد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اولاد دی تو ان کو یہودی اور نصرانی بنادیا۔ ابن کیسان (رح) فرماتے ہیں کہ کفار مراد ہیں کہ انہوں نے اپنی اولاد کا نام عبدالعزیٰ اور عبداللات اور عبد مناۃ رکھا اور عکرمہ (رح) فرماتے ہیں کہ تمام مخلوق مخاطب ہے۔ اپنے قول ” خلقکم “ کے ساتھ یعنی ہر ایک کو اس کے باپ سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی بنائی یعنی اس کی جنس سے اس کی بیوی بنائی اور یہ حسن (رح) کا قول ہے۔ اگر اسلاف میں سے عبد اللہ بن عباس ؓ ، مجاہد، سعید بن مسیب اور مفسرین رحمہما اللہ کی ایک جماعت کا یہ قول نہ ہوتا کہ یہ آیت آدم و حوا (علیہما السلام) کے بارے میں ہے۔ 051(فلما اتھما صالحاً جعلا لہ شرکآء فیمآ اتھما) اہل مدینہ اور ابوبکر رحمہم اللہ ” شرکا “ شین کے کسرہ اور تنوین کے ساتھ پڑھا ہے بمعنی شرکت۔ ابو عبیدہ (رح) فرماتے ہیں بمعنی حصہ اور باقی حضرات نے شرکاء شین کے ضمہ اور الف ممدودہ کے ساتھ پڑھا کہ شریک کی جمع ہے یعنی ابلیس مراد ایک ہے لیکن صیغہ جمع کا استعمال کیا ہے۔ یعنی اس کا شریک بنایا جب بچہ کا نام عبدالحارث رکھا، یہ عبادت میں شریک کرنا نہیں تھا اور نہ ہی حارث آدم (علیہ السلام) اور حواء (علیہما السلام) کا رب تھا کیونکہ آدم (علیہ السلام) نبی تھے اور شرک سے معصوم تھے لیکن ان کا مقصد یہ تھا کہ حارث بچہ کی نجات کا سبب ہے اور عبد کا لفظ عاجزی کے لئے بھی بولا جاتا ہے ہر جگہ اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ اس کو معبود مانتا ہے جیسے کسی مہمان آئے تو وہ تواضع میں خود کو عبدالضیف بھی بولا جاتا ہے ہر جگہ اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ اس کو معبود مانتا ہے جیسے کسی کا مہمان آئے تو وہ تواضع میں خود کو عبدالضیف کہتا ہے تو یہ مطلب نہیں کہ مہمان کو معبود مان لیا ہے۔ اسی طرح یوسف (علیہ السلام) نے عزیز مصر کو کہا ” ربی “ تو یہ مراد نہیں تھی کہ وہ ان کا معبود ہے (فتعلی اللہ عما یشرکون) بعض نے کہا کہ یہ نئی کلام ہے اس سے مراد اہل مکہ کا شرک کرنا ہے اور اگر ماقبل سے تعلق ہو تو معنی ٹھیک ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حواء (علیہما السلام) کے لئے بہتر یہ تھا کہ وہ شرک فی الاسم بھی نہ کرتے اور آیت کی تفسیم میں ایک اور قول یہ ہے کہ اس سے اولاد آدم (علیہ السلام) کے تمام مشرکین مراد ہیں۔ یہی حسن اور عکرمہ رحمہما اللہ کا قول ہے۔ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے اپنی اولاد کو شریک بنادیا ہے تو یہاں اولاد کا لفظ محذوف ہے اور ان دونوں کو ان کا قائم مقام بنادیا گیا ہے جیسا کہ آباء کے فعل کی نسبت ابناء (اولاد) کی طرف کی ہے ان کو عار دلانے کے لئے یا ان آیات میں اور فرمایا ” ثم اتخذتم العجل “ اور ” واذ قتلتم نفسا “ اس سے ان یہود کو خطاب کیا ہے جو نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں تھے حالانکہ یہ کام تو ان کے آباء نے کیا تھا۔
Top