Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 190
فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا١ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اٰتٰىهُمَا : اس نے دیا انہیں صَالِحًا : صالح بچہ جَعَلَا : ان دونوں نے ٹھہرائے لَهٗ : اس کے شُرَكَآءَ : شریک فِيْمَآ : اس میں جو اٰتٰىهُمَا : انہیں دیا فَتَعٰلَى : سو برتر اللّٰهُ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
جب وہ ان کو صحیح و سالم (بچہ) دیتا ہے تو اس (بچے) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں۔ جو وہ شرک کرتے ہیں (خدا کا رتبہ) اس سے بلند ہے
فلما اتہما صالحا جعلا لہ شرکآء فیما اتہما فتعلی اللہ عما یشرکون : لیکن جب اللہ نے ان کو صحیح سالم بچہ دے دیا تو اللہ کی دی ہوئی چیز میں دوسروں کو ساجھی قرار دینے لگے سو ان کے شرک سے اللہ پاک ہے۔ فتعالی اللّٰہ عما یشرکونپس اللہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو وہ شریک کرتے ہیں یعنی بتوں سے (اس صورت میں ما مصدری نہ ہوگا بلکہ موصولہ ہوگا) بغوی نے لکھا ہے بعض علماء کا خیال ہے یہ کلام ابتدائی ہے (پہلے کلام سے مربوط نہیں ہے) اور مشرکوں سے مراد ہیں کفار مکہ اور اگر پہلے کلام سے اس کو مربوط بھی قرار دیا جائے اور مذکورہ بالا اشخاص ہی مراد ہوں تب بھی مطلب صحیح ہوجائے گا (اور شرک سے مراد ہوگا نام رکھنے میں شرک کرنا) کیونکہ حضرت آدم ( علیہ السلام) و حوا کے لئے بہتر یہی تھا کہ نام میں بھی شرک نہ کرتے۔ سیوطی نے لکھا ہے کہ اس جملہ کا عطف خلقکم پر ہے اور درمیانی کلام بطور معترضہ ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ یشرکون کی ضمیر یہود و نصاریٰ کی طرف راجع ہے یعنی اللہ نے ان کو اولاد عنایت فرمائی (جو موحد اور مسلم تھی) مگر انہوں نے اس کو یہودی اور عیسائی بنایا اللہ ان کے اس فعل سے بزرگ و برتر ہے۔ ابن کیسان نے کہا یشرکون سے مراد وہ کفار ہیں جو اپنی اولاد کا نام عبدالعزی عبدالات ‘ عبدالمناۃ اور عبدالشمس رکھتے تھے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ عکرمہ اور حسن کے نزدیک آیات کی تفسیر سب سے الگ ہے ان بزرگوں کے نزدیک خلقکم من نفس واحدۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے تم سب کو ایک شخص سے یعنی ہر ایک کو اس کے باپ سے پیدا کیا پھر اس نفس سے یعنی اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا اور دونوں کے ملنے سے اولاد عطا کی مگر وہ شرک کرنے لگے اگرچہ یہ قول حضرت ابن عباس ؓ مجاہد سعید بن مسیب اور جمہور مفسرین کی تفسیر کے خلاف ہے مگر میرے نزدیک یہی صحیح ترین قول ہے اس کی دلیل حسب ذیل ہے۔ اللہ نے حضرت آدم اور حواء کو اکل شجرہ کی ممانعت فرما دی لیکن جب دونوں نے شجرہ کو کھالیا تو چند مقامات پر بطور تشنیع اس کا اظہار کیا مثلاً فرمایا وعصی ادم ربہ فغوی۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو بھی اپنے اس قصور پر بڑی ندامت ہوئی اور انہوں نے دعا کی ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی فرمایا ثم اجتباہ ربہ فتاب علیہ وہدی۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو توبہ قبول ہونے کے بعد بھی اپنی اس لغزش پر پشیمانی رہی صحیحین میں آیا ہے۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن مؤمنوں کو روک لیا جائے گا ان کو سخت پریشانی ہوگی اور کہیں گے کاش اس وقت کوئی سفارشی ہوتا جو اللہ سے سفارش کر کے ہم کو اس جگہ سے رہا کرا دیتا چناچہ لوگ آدم کے پاس جا کر کہیں گے آپ سب آدمیوں کے باپ ہیں اللہ نے خود اپنے ہاتھ سے آپ کو بنایا تھا اور اپنی جنت میں سکونت عطا کی تھی اور اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا تھا اور تمام چیزوں کے اسماء آپ کو سکھا دیئے تھے آج اپنے رب سے شفاعت کر کے ہم کو اس جگہ سے نجات دلا دیجئے حضرت آدم اپنی اس لغزش کو یاد کریں گے جو ممنوعہ درخت کو کھا لینے کی صورت میں پیدا ہوئی تھی اور کہیں گے میرا یہ مقام نہیں کہ تمہارے کام آؤں۔ اس حدیث پر غور کرو حضرت آدم ( علیہ السلام) سے درخت کو کھا لینے کی صورت میں جو خطا ہوئی تھی اس کو تو اس وقت یاد کریں گے (باوجودیکہ وہ لغزش معاف بھی ہوچکی ہے) لیکن دوسری (شرک والی) غلطی کو یاد نہیں کریں گے باوجودیکہ پہلی خطا سے دوسری خطا زیادہ سخت تھی ا (اور اس کی معافی کی بھی کوئی صراحت نہیں کی گئی) لہٰذا آیت مذکورہ کی تفسیر وہی صحیح ہے جو عکرمہ اور حسن نے کی۔
Top