Tafseer-e-Baghwi - Al-Anfaal : 2
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ
اِنَّمَا : درحقیقت الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ اِذَا : جب ذُكِرَ اللّٰهُ : ذکر کیا جائے اللہ وَجِلَتْ : ڈر جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاِذَا : اور جب تُلِيَتْ : پڑھی جائیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُهٗ : ان کی آیات زَادَتْهُمْ : وہ زیادہ کریں اِيْمَانًا : ایمان وَّ : اور عَلٰي رَبِّهِمْ : وہ اپنے رب پر يَتَوَكَّلُوْنَ : بھروسہ کرتے ہیں
مومن تو وہ ہے مہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اسکی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
تفسیر 2 (ان کنتم مئومنین) یعنی وہ لوگ مئومن نہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں سچے مئومن تو وہ ہیں (انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم) بعض نے کہا جب اللہ سے ڈرائے جائیں تو اس کے عذاب کے خوف سے مطیع ہوجائیں (واذا تلیث علیھم ایتہ زادتھم ایماناً ) تصدیق اور یقین میں۔ عمیر بن حبیب ؓ فرماتے ہیں ان کو شرف صحابیت حاصل ہے کہ ایمان کے لئے بھی کمی اور زیادتی ہے۔ عرض کیا گیا اس کی زیادتی کیا ہے ؟ تو فرمایا کہ جب ہم اللہ کا ذکر اور اس کی حمد کرتے ہیں تو یہ ایمان کی زیادتی ہے اور جب غفلت کرتے ہیں تو یہ ایمان کی کمی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے عدی بن عدی کی طرف خط لکھا کہ ایمان کے فرائض ، شرائع، حدود اور سنن ہیں جو ان کو مکمل کرلے تو اس نے ایمان کو مکمل کرلیا اور جس نے ان کو مکمل نہ کیا تو ایمان بھی مکمل نہ ہوا (وعلی ربھم یتوکلون) یعنی اپنے تمام امور اس کے سپرد کرتے ہیں اور اس پر اعتماد رکھتے ہیں اس کے غیر سے نہ کوئی امید رکھتے ہیں اور نہ اس کے سوا کسی سے ڈرتے ہیں۔
Top