بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - At-Takaathur : 1
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
تمہیں تکاثر (ایک دوسرے سے آگے بڑھنے نے) غفلت میں مبتلا کئے رکھا
لغات القرآن : الھا۔ بھلائے رکھا۔ غافل کئے رکھا۔ التکاثر۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کثرت نے۔ زرتم۔ تم نے دیکھ لی۔ سوف تعلمون۔ بہت جلد تم جان لو گے۔ علم الیقین۔ یقین کا علم۔ ترون۔ تم ضرور دیکھو گے۔ عین الیقین۔ آنکھ سے حاصل ہونے والا یقین۔ تسئلن۔ تم پوچھے جائو گے۔ النعیم۔ نعمتیں تشریح : آخرت کی فکر رکھتے ہوئے صبر و قناعت اختیار کرنا، اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق جائز اور حلال ذرائع سے مال و دولت حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا۔ جس کا بنیادی مقصد اللہ کی رضا و خوشنودی، اپنے بال بچوں کی مناسب دیکھ بھال، غریب، ضرورت مند اور محتاجوں سے ہمدردی اور بھلائی کا جذبہ رکھنا جس میں فخر و غرور، حرص اور لالچ نہ ہو۔ ہر قدم پر اس بات کا خیال رکھنا کہ اللہ نے جو بھی نعمتیں دی ہیں آخرت میں ان کا حساب دینا ہے۔ ان بنیادی باتوں کا خیال رکھتے ہوئے مال و دولت حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت، جدوجہدا ور بھاگ دوڑ کرنا کسی طرح عبادت سے کم نہیں ہے۔ اس جدوجہد کی قطعاً ممانعت نہیں ہے۔ لیکن جن لوگوں کا مقصد زندگی صرف مال و دولت سمیٹنا، اپنی شان و شوکت کا اظہار کرنا، لوگوں پر رعب اور دھونس جمانے کے لیے اونچی اونچی بلڈنگیں بنانا، لمبی چوڑی سواریاں حاصل کرنا، حلال و حرام کی پرواہ نہ کرنا اور آخرت سے غفلت اختیار کرنا ہو اس کی سخت ممانعت ہے۔ ایسے لوگ کبھی اس بات پر غور وفکر نہیں کرتے کہ یہ تمام چیزیں اس وقت تک ان کے ساتھ ہیں جب تک موت کا فرشت ان کے سامنے آکر کھڑا نہیں ہوجاتا۔ جیسے ہی موت آئے گی یہ تمام چیزیں ان سے چھین لی جائیں گی۔ اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” آدمی کہتا ہے میرا مال میرا مال۔ حالانہ تیر امال تو صرف اتنا ہے جو تنے کھا کر فنا کردیا یا پہن کر پرانا اور بوسیدہ کردیا یا صدقہ کرکے اس کو (آخرت کے لیے) آگے بھیج دیا۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اس کو لوگوں کے لیے چھوڑ کرجانے والا ہے۔ “ (مسلم، ترمذی، مسند احمد) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس مال کو اپنا مال کہتا ہے درحقیقت وہ اس کا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے وارثوں کے مال کا نگران ہے۔ آنکھ بند ہوتے ہی اس کے وارثوں میں سے ہر ایک اپنا حصہ کھینچنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو فرشتہ آگے آگے یہ کہتا جاتا ہے کہ تو کیا لے کر آیا ہے ؟ اور جو مرنے والے کے وارث ہیں وہ کہتے ہیں کہ تو کیا چھوڑ کر گیا ہے ؟ جو آدمی مال و دولت کے لالچ میں پڑجاتا ہے اور اسی کو مقصد زندگی بنالیتا ہے وہ جتنی بھی دولت جمع کرلیتا ہے اس پر صبر و قناعت نہیں کرتا بلکہ دن رات اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے اس کو دگنے سے دگنا کیسے کرسکتا ہوں۔ اس کی ہوس کا منہ کھلتا ہی چلا جاتا ہے۔ صرف قبر کی مٹی ہی اس کے ہوس کے منہ کو بھر سکتی ہے۔ اس بات کو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ” اگر آدم زاد کے لیے سونے سے بھری ہوئی ایک وادی موجود ہو تو وہ چاہے گا کہ ایسی دو وادیاں اور ہوجائیں ( اس کی ہوس بڑھتی ہی چلی جاتی ہے) ۔ مٹی کے سوا کوئی چیز اس کے منہ کو بھر نہیں سکتی۔ لیکن اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ “ (صحیح بخاری) درحقیقت یہی تکاثر ہے جو آخرت کی ابدی زندگی سے غافل کئے رکھتا ہے یہاں تک کہ اس کو موت آجاتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ” الھکم التکاثر “ پڑھ کر ارشاد فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ مال جو ناجائز طریقوں سے حاصل کیا جائے اور اس پر جو فرائض ہیں ان پر خرچ نہ کیا جائے ۔ (قرطبی) فرمایا کہ آج تم جس عذاب جہنم کا انکار کررہے ہو نہ تو وہ جہنم دور ہے اور نہ اس دنیا سے جانے کا وقت دور ہے وہ بہت جلد آنے والا ہے۔ ہر انسان بہت جلد اس جہنم کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ کر یقین کرنے پر مجبو رہوجائے گا۔ فرمایا کہ اس کے بعد ہر شخص سے ان تمام نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا جو دنیا میں اسے عطا کی گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل تو ارشاد نہیں فرمائی کہ کن نعمتوں کے متعلق سوال ہوگا۔ البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص سے دیکھنے، سننے اور سوچنے کی طاقتیں جو نعمت کے طور پر عطا فرمائی گئیں ہیں ان کے بارے میں سوال بھی کیا جائے گا۔ جو لوگ ان سوالوں کے صحیح جواب دیں گے ان کے لیے جنت اور اس کی ابدی راحتیں ہوں گی اور جو اس امتحان میں فیل ہوجائیں گے ان کے لیے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ محشر کے دن کوئی شخص اس وقت تک اپنی جگہ سے ہل نہ سکے گا جب تک وہ پانچ سوالات کے جوابات نہ دے دے۔ (1) ۔ اس نے اپنی عمر کن کاموں میں کھپائی ؟ (2) ۔ اس نے اپنی جوانی کی طاقتوں کو کن کاموں میں خرچ کیا ؟ (3) ۔ وہ مال جو اس نے کمایا وہ کس طریقے سے حاصل کیا تھا (جائز یا ناجائز طریقے پر) ؟ (4) ۔ اس نے جو مال و دولت حاصل کیا تھا اس کو کن مصارف میں خرچ کیا ؟ (5) ۔ اللہ نے جو علم اس کو دیا تھا اس نے اس پر کتنا عمل کیا تھا ؟ سورۃ التکاثر بہت چھوٹی سی سورت ہے مگر غور فکر کرنے والے جانتے ہیں کہ اللہ نے اس میں زندگی اور اس کے متعلق چند جملوں میں دنیا اور آخرت کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور خصوصیت بھی ہے۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم میں کوئی شخص اس کی قدرت و طاقت رکھتا ہے کہ ہر روز قرآن کریم کی ایک ہزار آیات پڑھا کرے ؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کون روزانہ ایک ہزار آیتیں پڑھ سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں کوئی الھکم التکاثر نہیں پڑھ سکتا ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص سورة تکاثر کو پڑھے گا اس کو ایک ہزار آیتیں پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Top