Baseerat-e-Quran - Al-Hajj : 39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
اُذِنَ : اذن دیا گیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو يُقٰتَلُوْنَ : جن سے لڑتے ہیں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ ظُلِمُوْا : ان پر ظلم کیا گیا وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي نَصْرِهِمْ : ان کی مدد پر لَقَدِيْرُ : ضرور قدرت رکھتا ہے
جن لوگوں کے خلاف جنگ کی جارہی ہے ان کو اذن (جہاد) دیدیا گیا ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے۔ اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
لغات القرآن 39 تا 41 : اذن (اجازت دے دی گئی) ‘ یقتلون (وہ لڑتے ہیں) دیار (دار) (گھرے مکانات) ‘ دفع (دور کرتا ہے) ‘ ھدمت (ڈھادیئے گئے) ‘ صوامع (صومعۃ) ترک دنیا کرنے والوں کی عبادت گاہ ‘ بیع (بیعۃ) (نصاری کے گرجا گھر) ‘ صلوات (یہودیوں کے عبادت خانے) ‘ یذکر (یاد کیا گیا۔ یا کیا جاتا ہے) ‘ مکنا (ہم نے غلبہ دیا۔ ہم نے جمائو عطا کردیا) ‘ عاقبۃ (انجام) تشریح : آیت نمبر 39 تا 41 : سورۃ الحج کی ان آیات میں چند بنیادی اور اہم مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔ ان آیات کی تشریح سے پہلے اگر اس پس منظر کو سامنے رکھا جائے جن حالات میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی منشا کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی۔ پس منظر یہ ہے۔ اعلان نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں نبی کریم ﷺ اور آپ کے جان نثار صحابہ کرام ؓ کو مسلسل تیرہ سال تک اس طرح ستایا گیا اور ظلم و زیادتی کی انتہا کردی گئی جس کے تصور سے روح کا نپ اٹھتی ہے۔ صحابہ کرام ؓ کو مارنا ‘ پیٹنا ‘ گرم تپتے پتھروں اور جسم کو جھلسا دینے والے ریت پر ننگے بدن لٹاکر اوپر سے سینے پر بھاری پتھر رکھ دینا۔ کنکر یلے پتھروں پر گھسٹینا ‘ کھانے پین کی چیزوں کو روکنا ‘ میل جول چھوڑ دینا اور طرح طرح کے طعنے دینا وغیرہ۔ ان سنگین حالات میں صحابہ کرام ؓ کو حکم تھا کہ وہ کفار کے ہر ظلم و ستم کے جواب میں تحمل ‘ صبر اور برداشت سے کام لیں۔ دوسری طرف خود نبی کریم ﷺ کو کفار ہر طرح کی اذیتیں پہنچانے میں کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔ جب آپ دین حق کی طرف بلانے کی جدوجہد کرتے تو قریشی نوجوان اور بچے شور ہنگامہ کرتے تاکہ آپ کی بات کسی کے کانوں تک نہ پہنچنے پائے۔ جب آپ طائف تشریف لے گئے تو وہاں آپ کی بات سننے کے بجائے اتنے پتھر برسائے گئے کہ آپ لہو لہان ہوگئے۔ جب مکہ کی سرزمین صحابہ کرام ؓ کے لئے تنگ ہوتی چلی گئی تو نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ پھر اللہ کے حکم سے نبی کریم ﷺ نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی جیسے ہی صحابہ کو اس کا علم ہوا تمام جاں نثاران مصطفیٰ مدینہ منورہ پہنچ گئے اور اس طرح تمام مومنین نے مدینہ منورہ کو اپنا مرکز بنا لیا۔ مفسرین نے حضرت صہیب رومی ‘ حضرت ام سلمہ ؓ اور ان کے شوہر ابو سلمہ ؓ اور حضرت عباس ابن ربیعہ ؓ وغیرہ کے واقعات کو نقل کر کے بتایا ہے کہ خاص طور سے ان حضرات کو اس بری طرح ستایا گیا جو ناقابل تصور ہے اور اس طرح وہ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیئے گئے کفار قریش نے مدینہ منورہ میں بھی آپ کو چین سے نہ بیٹھنے دیا اور کئی جنگیں مسلط کردی گئیں۔ 6؁ ہجری میں نبی کریم ﷺ اور آپ کے ساتھ چودہ سو صحابہ کرام ؓ ذوالحلیفہ سے احرام باندھ کر عمرہ کی نیت سے روانہ ہوئے تو عرب کے دستور کے مطابق ایک ایک تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں لیا گیا۔ آپ کے ساتھ قربانی کے جو جانور تھے آپ نے ان کو قلادے پہنائے اور اونٹ کے کوہانوں کو چیر کر اس بات کا نشان بنا دیا کہ یہ جانور اللہ کے گھر میں قربانی کے لئے جارہے ہیں۔ جب قریش کو اس بات کا علم ہوا تو وہ بوکھلا اٹھے۔ مجلس شوری منعقد کر کے یہ فیصلہ کیا کہ آپ ﷺ کو اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکاجائے۔ جب آپ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے عام راستہ چھوڑ کر ایک دوسرا پر پیچ راستہ اختیار کیا اجو پہاڑی گھاٹیوں کے درمیان سے ہو کر گذرتا تھا۔ اور اسی طرح آپ ﷺ حدیبیہ کے مقام پر مقیم ہوگئے ۔ آپ ﷺ نے اعلان فرما دیا کہ ہم صرف زیارت بیت اللہ کے لئے آئے ہیں لڑنے کے لئے نہیں آئے۔ قریشیوں کی ہر کوشش ناکام ہوگئی۔ قریشیوں نے صورت حال کی نزاکت محسوس کر کے سہیل بن عمرو کو صلح کے معاملات طے کرنے کے لئے روانہ کردیا اور یہ تاکید کردی کہ صلح میں لازمی طور پر یہ بات طے کی جائے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ اس سال واپس چلے جائیں اور اگلے سال تین دن کے لئے بغیر اسلحہ لئے ہوئے آئیں۔ عمرہ اداکریں اور واپس چلے جائیں۔ کافی طویل گفتگو کے بعد کچھ نکات طے پا گئے۔ شرائط یہ تھیں (1) اس سال مسلمان واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آکر عمرہ اداکریں۔ (2) یہمعاہدہ دس سال کے لئے ہوگا۔ جس میں جو جس کے ساتھ ملنا چاہتا ہے وہ مل لے اور ایک دوسرے پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔ (3) جو شخص اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر بھاگ کر مدینہ آئے گا اس کو واپس کیا جائے گا لیکن جو شخص مدینہ سے قریش کے پاس آجائے گا وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ سے اس معاہدہ کو تحریر کرایا اس معاہدہ کے بعد آپ ﷺ نے احرام کھول دیا۔ جانور ذبح کئے اور سرمنڈایا۔ آپکے صحابہ اس معاہدہ کو اپنی شکست سمجھ رہے تھے دل ہی دل میں گھٹن بھی محسوس کررہے تھے مگر جب انہوں نے نبی کریم ﷺ کے عمل کو دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے احرام کھول دیئے۔ اگر ذرا بھی غور کیا جائے تو یہ معاہدہ درحقیقت کفار مکہ کی زبردست شکست تھی۔ وجہ یہ ہے کہ معاہدہ ہمیشہ دو برابر کی طاقت اور حیثیت والوں کے درمیان ہوا کرتا ہے۔ اس معاہدہ کے ذریعہ کفار نے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کو برابر کی طاقت تسلیم کرلیا تھا جب کہ اس سے پہلے وہ مسلمانوں کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ تھے یہی وجہ ہے کہ اس سفر سے واپسی کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورة فتح کی آیات نازل کر کے ان کو فتح مبین قرار دیا۔ صلح حدیبیہ درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کی زندگی میں ایک نئی اور خوش گوار تبدیلی کا آغاز تھا کیونکہ قریش جو مسلسل جنگیں مسلط کررہے تھے جب وہ میدان جنگ میں پسپا ہو کر امن و سلامتی کی طرف آگئے تو بت پرستوں اور یہودیوں کے جذبات ٹھنڈے پڑے گئے اور ان کی طاقت تقسیم ہو کر رہ گئی۔ چونکہ دین اسلام امن و سلامتی کا نظریاتی دین ہے اس لئے امن و سلامتی کا موسم ہی اس کو راس آتا ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد اہل ایمان کو دین اسلام کی دعوت کو پھیلانے اور تبلیغ دین کا ایک اہم موقع ہاتھ آگیا۔ چناچہ مدینہ پہنچتے ہی اہل ایمان کی سرگرمیوں میں ایسی تیزی آئی کہ مسلمان افواج جن کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ ہو کسی تھی محض دو سال میں فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اس عرصہ میں دو اور زبردست کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ (1) آپ نے دنیا بھر کے حکمرانوں اور بادشاہوں کے نام خطوط لکھ کر دعوت اسلام پیش کی جس کے جواب میں کسی نے اسلام قبول کیا کسی نے نہیں کیا لیکن اس سے یہ فائدہ ہوا کہ کافروں کی توجہ اس طرف ہوگئی اور ان کے نزدیک آپ ﷺ کا دین اور آپ ﷺ کا نام جانا پہنچانا بن گیا۔ (2) دوسرا فائدہ یہ پہنچا کہ خیبر جو مدینہ منورہ سے شمال کی جانب ایک سو میل کے فاصلے پر ہے وہ یہودیوں اور منافقین کی سازشوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ وہ ہر طرف مسلمانوں کے خلاف آگ بھڑکا رہے تھے۔ کفار مکہ کے حملوں کے وقت بنو قریظہ کے یہودیوں نے میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غداری کی اور در پر دہ کفار کی مدد کی اور غزوہ خندق میں کفار کو مدینہ پر حملہ کی ترغیب بھی بنو قریظہ والوں نے دی تھی۔ وہ مسلسل اس سازش میں لگے ہوئے تھے کہ اگر بنو غطفان اور دیہاتی بدوان کے ساتھ مل جائیں تو وہ مسلمانوں کو گھیر کر ختم کر ڈالیں گے۔ دوسری طرف رائیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی مسلسل خیبر کے یہودیوں کو اکسارہا تھا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کردیں اور مسلمانوں کی قوت کو تہس نہیس کردیں۔ یہ وہ تمام حالات ہیں جو نبی کریم ﷺ کے پیش نظر تھے۔ ابھی تک اللہ کی طرف سے اپنا دفاع کرنے کی اجازت تھی لیکن کفر کی طاقت کو توڑنے کے لئے خود سے تلوار اٹھانے کی اجازت نہ تھی لیکن سورة الحج کی ان آیات میں اہل ایمان کی مظلومیت کو دیکھتے ہوئے تلوار اٹھانے کی اجازت دے دی گئی۔ کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے وہ آیات نازل فرمائیں جن میں کفر کو ایک فتنہ قرار دے کر اس کو مٹا ڈالنے کا حکم دیدیا گیا۔ نبی کریم ﷺ جب قریش سے معاہدہ کرنے کے بعد اس سے مطمئن ہوگئے کہ جنوب سے ان پر حملہ نہ ہوگا۔ تب آپ نے پہلی مرتبہ خیبر کی طرف پیش قدمی فرمائی۔ آپ نے حدیبیہ سے واپس آکر ذی الحجہ اور محرم کے چند دن گذار کر خیبر کی طرف چلنے کا حکمدیدیا۔ یہودیوں اور منافقین کی ساری کوششوں کے باوجود بہت تھوڑے عرصے میں اہل ایمان نے خیبر کے پورے علاقے کو فتح کرلیا اور اللہ نے جس صلح حدیبیہ کو ” فتح مبین “ قرار دیا تھا اس کی حقیقت سب کے سامنے کھ کر آگئی۔ اگر دیکھا جائے تو درحقیقت صلح حدیبیہ ہی دین اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی ہے جب کہ دین اسلام ایک علاقائی سطح سے ابھر کر عالمی سطح پر آگیا تھا اور اسلامی سلطنت مدینہ تک نہیں بلکہ ایک سو میل دور تک قائم ہوچکی تھی۔ اب اس پس منظر میں ان آیات کو ملاحظہ کیجئے تو پوری بات نہایت آسانی سے سمجھ میں آسکے گی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا خلاصہ یہ ہے۔ جن لوگوں (صحابہ کرام ؓ پر جنگ مسلط کی گئی تھی ان کو (پیش قدمی کرنے اور تلوار اٹھانے کی ) اجازت دیدی گء ہے کیونکہ ان پر ظلم و زیادتی کی گئی تھی۔ ان کو ان کے گھروں سے نکالا گیا ہے صرف اس لئے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مدد کرنے پر پوری قدرت و طاقت رکھتا ہے۔ اللہ بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے ذریعہ ہٹاتا نہ رہتا تو راہبوں ‘ خانقاہوں ‘ نصاری کے گرجا گھر ‘ یہودیوں کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کا نا لیاجاتا ہے وہ ڈھادی جاتیں۔ یقیناً اللہ ان لوگوں کی ضرور مدد کرے گا جو اس (کے دین) کی مدد کریں گے۔ بلاشک و شبہ اللہ بڑی طاقت وقوت والا ہے۔ وہ لوگ جنہیں ہم اگر زمین میں تمکن (طاقت و قوت ‘ حکومت و اقتدار) عطاکریں گے تو وہ نمازیں قائم کریں گے۔ زکوۃ اداکریں گے نیک اور بھلے کاموں کا حکم دیں گے اور ہر طرح کی برائیوں سے روکیں گے لیکن ہر کام کا انجام اللہ ہی کے اختیار وقدرت میں ہے۔ ان آیات میں بیان کیے گئے چند مضامین کی وضاحت یہ ہے۔ (1) آپ نے آیات کے پس منظر میں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ مکہ کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کا کوئی ایسا پہلو نہ تھا جو کفار مکہ نے چھوڑ دیا ہو۔ مکہ مکرمہ کی تیرہ سالہ زندگی اور مدینہ منورہ کی ابتدائی زندگی میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے اطاعت رسول کے عظیم جذبہ کے تحت کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا ہر طرح کے ظلم وس تم کو سہتے رہے۔ انتہائی صبر و تحمل ‘ برداشت اور اطاعت رسول ﷺ کی عظیم مثال قائم کردی۔ جب کفار مکہ نے اہل ایمان کو مدینہ منورہ میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا اور سنگین جارحیت کا مظاہرہ کیا اور اپنی سازشوں کا جال مدینہ کے کفار و مشرکین اور یہودیوں تک پھیلا دیا جو میثاق مدینہ کے پابند تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تلوار اٹھانے کی اجازت دیدی اور کچھ عرصہ بعد وہ آیات نازل فرمائیں جن میں قتال و جہاد اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ سب سے پہلی آیت ہے جس میں حضور اکرم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ کفار کو منہ توڑ جواب دیں حالانکہ اس سے پہلے ستر آیات میں قتال کی ممانعت فرمائی گئی تھی۔ (ترمذی ‘ مسند احمد) (2) دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اللہ کو اس بات کی پوری قدرت حاصل ہے کہ وہ ان مظلوموں کی مدد فرمادے لیکن اللہ کا یہ قانون ہے کہ اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو اس (کے دین) کی مدد کرتے ہیں۔ بتایا یہ گیا ہے کہ قیامت تک آنے والے اہل ایمان اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ اگر انہوں نے اللہ کے دین کی مدد نہ کی یعنی انہوں نے سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا اور دین کے فروغ سے غفلت اختیار کی تو پھر ان کی مدد نہ کی جائے گی۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ اے مومنو ! تم ہی غالب رہوگے بشرطیکہ تم مومن ہوگے۔ (3) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی جدوجہد اور مظلومیت کو سند عطا فرمادی ہے اور فرمادیا گیا ہے کہ جن اہل ایمان کو ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا گیا تھا یا ان کو نکالا گیا تھا اور اپنا سب کچھ دین اسلام کے لئے مٹا کر ہجرت کرگئے تھے اللہ نے ان کے ایثار و قربانی کو اپنی بار گاہ میں قبول فرما لیا ہے اور ان کی ہر طرح مدد کی جائے گی۔ (4) چوتھی بات یہ ارشاد فرمائی کہ اہل ایمان کے اس جذبے کو انہوں نے ” جرم “ بنا دیا تھا کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب ایک اللہ ہے۔ وحدانیت کا اقرار کرنے والوں کو انہوں نے جس طرح اپنی ملامت کا نشانہ بنا رکھا تھا وہ بھی ایک طرح کا ظلم ہی تھا کیونکہ کفار قریش جنہیں ابراہیمی ہونے پر بڑا ناز تھا ان کو تو اس توحید کے درس کو سب سے پہلے حاصل کرنا چاہیے تھا کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر وی زندگی درس توحید اور عملی جدوجہد کرتے رہے تھے ۔ جب انہوں نے ان مشرکین کو ان کے شرک پر آگا کیا تو انہوں نے اپنی سی کوشش کرکے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک زبردست آگ میں جھونک دیا تھا اور سمجھ لیا تھا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں بھسم کردیا۔ لیکن اللہ کو ایک ماننے والوں کو اللہ اسی طرح بچا لیا کرتا ہے۔ (5) پانچویں بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص یا قوم پر خلوص دین داری ‘ پر عزم جدوجہد اور سر فروشی کے اپنے آپ کو سچائی کا پیکر بنا لیتی ہے تو وہ اگر چہ کمزورہی کیوں نہ ہو وہ دنیا میں تنہا اور بےبس نہیں ہوتی بلکہ جب ظالم اپنے ظلم کی انتہاؤں پر پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ مظلوموں کے بازؤں میں وہ طاقت بھر دیتا ہے۔ اور حالات کو ان کے موافق بنا دیتا ہے کہ پھر ظالموں کا جینا دو بھر کردیتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ نظام نہ ہوتا تو دنیا ظلم سے بھر جاتی اور کسی کا اقتدار اور کسی کی مذہبی جگہیں محفوظ نہ رہتیں۔ عیسائی راہبوں کی خانقاہیں ‘ نصاری کے گرجا گھر ‘ یہودیوں کے عبادت خانے اور اللہ کی وہ مسجدیں جہاں بڑی کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے سب کے سب برباد ہوجاتے۔ لہٰذا اللہ مظلوموں کے ذریعہ ظالموں کو ختم کرتارہتا ہے۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ظالم و مظلوم کی یہ کشمکش ہر دور میں رہی ہے اللہ ایک کو دوسرے کے ذریعہ ہٹا تا رہا ہے۔ ایسے سیکڑوں واقعات تاریخ کے صفحات میں مل جائیں گے کہ جب ظالموں نے ظلم کی انتہا کردی تو مظلوم اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ظالموں کے ایوانوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ اگر ہم بر صغیر ہی کی تاریخ کو سامنے رکھ لیں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ صرف ایک سو سال میں دو بڑی سلطنتوں کا زبردست عروج اور زوال ہوا۔ سلطنت برطانیہ جو یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک سے شروع ہوئی اور بتدریج اس نے دنیا کے اہم ملکوں پر قبضہ کرلیا اور وہ دنیا کی عظیم سلطنت اور طاقت بن کر ابھری۔ سلطنت برطانیہ کی وسعت اور پھیلائو کا یہعالم تھا کہ ان کی سلطنت میں سورج ڈوبتا ہی نہ تھا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے لئے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں ایسے ایسے ظلم کئے جن کے تصور سے دل دہل جاتے ہیں اور انسانیت تڑپ کر رہ جاتی ہے۔ انسانیت کے نام کی مالا جپنے والے لوگوں کے سفید تھے لیکن ان کے دلوں کی سیاہی نے ہر طرف اندھیر مچا کر رکھ دیا تھا۔ ہندوستان میں خاص طور پر چونکہ مسلمانوں سے سلطنت چھینی گئی تھی اس لئے مسلمانوں پر وہ ظلم کئے جس کا تصور مہذب دنیا کر ہی نہیں سکتی۔ سات دن تک برابر قتل عام کیا جاتا رہا ایک ایک گھر کی تلاشی لی گئی۔ پھانسیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ عام شاہراہوں سڑکوں پر پھانسی کے تختے لگا دیئے گئے۔ یہ جگہیں جہاں پھانسیاں دی جارہی تھیں انگزیزوں کی ترفریح اور دلچسپی کا مرکز بن گئیں تھیں جہاں وہ پھانسی پانے والوں کے سسکنے اور دم توڑنے کا لطف لیا کرتے تھے سگریٹ کا کش لگاتے۔ آپس میں باتیں کرتے۔ جب پھانسی کا کام مکمل ہوجاتا اور وہ مظلوم شخص آخری ہچکی لیتا تو ہنسی او مسکراہٹ کے ساتھ اطمینان کا اظہار کیا جاتا۔ ان بدنصیبوں میں بڑے بڑے ذی وجہاہت اور شان والے لوگ تھے۔ بعض مسلم محلے اس طرح تباہ و برباد کرکے رکھ دیئے گئے کہ پورے محلے میں کوئی ایک شخص بھی زندہ نہ بچ سکا۔ ستائیس ہزار اہل اسلام نے پھانسی پائی۔ عورتوں اور بچوں تک کی لاشیں سڑکوں پر کھینچی گئیں۔ باپردہ خواتین اور شریف خواتین کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جس کا تصور ممکن نہیں ہے اور اس کا خیال کر کے دل دھل جاتا ہے۔ (قیصر التواریخ ص 454 ) میلی سن لکھتا ہے۔ ہمارے فوجی افسر ہر قسم کے مجرموں کو مارتے پھرتے تھے۔ اور کسی درد اور افسوس کے بغیر انہیں پھانسیاں دے رہے تھے گویا وہ کتے تھے یا گیڈر یا نہایت ادنی قسم کے کیڑے مکوڑے (میلی سن ص 177 ج 2) فیلڈمارشل لارڈ ابرٹس نے 21 جون 1857 ئ؁ کو اپنی والدہ کو خط لکھا کہ سزائے موت کی سب سے زیادہ موثر صورت یہ ہے کہ مجرم کو توپ سے اڑا دیا جائے۔ یہ بڑا ہی خوفناک نظارہ ہوتا ہے۔ لیکن وجودہ وقت میں ہم احتیاط پر کار بند نہیں ہو سکتے ہمارا مقصد ان بد معاش مسلمانوں پر یہ ظاہر کرنا ہے کہ اللہ کی مدد سے انگریز اب ہندوستان کے مالک رہیں گے۔ (ایڈورڈ تھامسن ص 40۔ 1926 ؁) یہ اور اسی قسم کے وہ بیشمار واقعات ہیں جو ایک انسان کو لرزا کر رکھ دیتے ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں پر معاش اور روزی کے دروازے بند کردیئے۔ ان کے اوقاف و جائید ادوں کو بحق سرکار ضبط کرلیا گیا۔ جن علما نے سر اٹھانے کی کوشش کی ان کو زنگی بھر کی سزادے کر کالے پانی بھیج دیا گیا۔ اسلامی مدارس کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ایک زبردست مہم چلائی گئی تاکہ ان کے من پسنداداروں کو ترقی ملتی رہے۔ غر ضی کہ کوئی ایسا ظلم نہ تھا جو انگریزوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے خلاف نہ کیا ہو۔ اس ظلم کے بعد دنیا کی مظلوم قوموں نے ایک انگڑائی لی۔ بیداری کی لہر اٹھی جو سلطنت برطانیہ کو بہا کرلے گئی۔ برطانیہ سمٹتے سمٹتے اپنے جزیرے تک محدود ہو کر رہ گیا۔ جس کی سلطنت میں سورج نہیں ڈوبتا تھا آج یہ عالم ہے کہ ان کی سلطنت میں سورج ہی نہیں نکلتا۔ یورپ کے ظلم و ستم کے ردعمل کے طور پر دنیا میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجے میں روس ایک طاقت ورملک بن کر ابھرا اور وہ دنیا کی عظیم طاقت بن گیا۔ اس نے بھی اپنی طاقت پر گھمنڈ کرنا شروع کیا اور خاص طور پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے میں کسر اٹھا نہ رکھی کیونکہ روس درحقیقت اپنے لئے اسلام ہی کو سب سے بڑا حریف سمجھتا تھا لہٰذا اس نے مسلمانوں اور دینی اداروں کو تباہ کرنے میں پوری طاقت جھونک دی۔ دوسری طرف امریکہ بھی ابھر کر سامنے آگیا اور پوری دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوگئی ایک کمیونسٹ بلاک اور دوسرا سرمایہ دار گروپ۔ دونوں کی کشمکش نے ایک مرتبہ پھر دنیا میں ظلم و زیادتی کا سلسلہ شروع کردیا۔ آخر کار امریکی سازشوں سے روس جیسی سپر پاور کو افغانستان میں اس طرح دھنسا دیا گیا کہ روس کی اکانومی اس طرح تباہ و برباد ہوگئی کہ روس کی طاقت کے اور ملک کے ٹکڑے اڑ گئے۔ اب اس وقت دنیا میں صرف امریکہ سپر پاور کے طور پر ابھر چکا ہے مگر اس نے مغربی مزاج کے مطابق پوری دنیا کو اپنے قدموں میں رکھنے کے لئے ساری دنیا کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ لیا ہے۔ پوری دنیا کے حکمران ‘ مملکتیں حتی کہ اقوام متحدہ بےجان ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب امریکہ بھی انسانیت کا نام لے کر تباہی و بربادی مچائے ہوئے ہے۔ افغانتسان اور عراق کی جائز حکومتوں کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ اب اس کے بعد اللہ کا نظام کیا ہے وہی بہتر جانتا ہے لیکن امریکیوں کے ظالمانہ رویئے اور پانی طاقت کے گھمنڈ پر ناز کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی فرعونیت بہر حال رنگ لاکر رہے گی اور قرآنی فیصلہ اس پر نافذ ہو کر رہے گا۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ شاید اب آئندہ ہندو اور یہودی یا چین سپر پاور کے طور پر سامنے آئیں گے۔ ایک دفعہد نیا پھر سے ظالموں کے ہاتھوں میں پھنس جائے گی۔ مگر افسوس یہ ہوتا ہے کہ صدیوں سے کفار کے ظلم و ستم سہنے کے باوجود مسلم قوم بد ستور سورة ی ہے اور وہ آنکھیں کھول کر حالات کا جائزہ لینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ اگر ہم اب بھی اپنے خواب غفلت سے نہ جاگے تو آئندہ سودوسو سال تک مسلمانوں پر کفار و مشرکین کا مکمل غلبہ ہوجائے گا۔ جب سر سے پانی اونچاہوجائے گا تب ہم اٹھنے کی کوشش کریں گے۔ مگر اس وقت تک گاڑی نکل چکی ہوگی۔ کاش امت مسلمہ ایک دفعہ پھر ابھر کر دنیا کو ظلم سے نجات دلائے اور دنیا میں امن و سکون کا نظام قائم کرے جو صرف قرآن و سنت کے مطابق قوانین ہی سے ممکن ہے۔ (6) چھٹی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ” تمکن فی الارض “ (حکومت و سلطنت اور اقتدار وقوت) کی پیش گوئی اس وقت فرمائی جب ان کو مدینہ منورہ کے چند علاقوں پر بھی مکمل اقتدار و قوت حاصل نہ تھا۔ ان سے فرمایا جارہا ہے کہ اگر ان اہل ایمان کو دنیاوی سلطنت و حکومت اور قوت اقتدار عطا کیا جائے گا تو وہ دنیا کے فاتحین کی طرح غرور وتکبر ‘ نفس پرستی ‘ ظلم و زیادتی ‘ ذاتی شان و شوکت اور عیش پرستی کے بجائے وہ اقتدار اللہ کی امانت سمجھ کر نہایت عاجزی و انکساری سے ہر وہ کام کریں گے جسے ان کا پروردگار پسند کرتا ہے وہ اقتدار و حکومت کے ذریعہ دنیا میں لوٹ کھسوٹ ‘ ظلم و زیادتی اور بےانصافی کے بجائے دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دیں گے۔ دین اسلام کو ایک نئی زندگی دینے کے لئے نمازوں کے نظام کو قائم کریں گے اور زکوۃ کے عاد لانہ نظام کے ذریعہ نیکیوں اور بھلائیوں کو فروغ دیں گے اور ہر برائی اور گناہ کے کاموں کو مٹانے اور دبانے کی بھر پور جدوجہد کریں گے۔ تاکہ دنیا کے بلکتے سسکتے انسانوں کو دین اسلام کے سائے میں امن و سلامتی مل سکے ۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ان آیات کے نزل ہونے کے بہت تھوڑے عرصے میں اسلام کا جھنڈا خیبر اور فتح مکہ سے شروع ہو کر ساری دنیا پر لہراتا چلا گیا۔ اور اس جھنڈے تلے انسانوں کو انسانی ظلم و ستم سے نجال مل گئی۔ اسلام کا عاد لانہ نظام دنیا بھر پر چھا گیا اور دنیا کے تمام لوگوں کو حقیقی امن و سلامتی نصیب ہوگئی۔ آج ایک مرتبہ پھر دنیا ظلم و جبر سے بھر گئی ہے۔ ہر طرف دنیا پرستی اور زر پرستی نے انسانی اقدار کو دولت اور لالچ کی بھینٹ چڑھادیا ہے۔ کیونکہ دنیا کا اقتدار قوت اور حکومت ان مشرکین و کفار کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی ہے جو اس کے اہل نہ تھے۔ اہل ایمان کو پوری طاقت و قوت سے ابھر کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تا کہ دین اسلام کے سچے اصولوں کی روشنی سے دنیا کی تاریکیاں چھٹ جائیں اور ایک نئی صبح طلوع ہوجائے۔
Top