Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 79
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : وہی جس نے اَنْشَاَ لَكُمُ : بنائے تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) قَلِيْلًا : بہت ہی کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے کان ‘ آنکھیں اور دل بنائے ہیں۔ تم میں سے بہت کم لوگ شکرادا کرتے ہیں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 78 تا 92 : ذرأ(اس نے پیدا کیا۔ اس نے پھیلادیا) ‘ اساطیر (اسطورۃ) قصے کھانیا ‘ یجیر (پناہ دیتا ہے) ‘ السبع (سات) ‘ تسحرون ( تم جادو میں پھنس گئے) ما اتخذ (نہیں بنایا) ‘ لذھب (البتہ جاتا ( البتہ لے جاتا) ‘ لعلا ( البتہ چڑھ دوڑتا) ‘ یصفون (وہ بیان کرتے ہیں) ‘ الغیب ( بن دیکھی حقیقتیں۔ چھپی باتیں) ‘ الشھادۃ ( موجود۔ کھلی باتیں) ‘ تعلی ( وہ بلندو برتر) ۔ تشریح : آیت نمبر 78 تا 92 : اگر انسان اللہ کی ان نعمتوں کو شمار کرنا چاہے جو اس پر اللہ نے کی ہیں تو شاید ان کو شمارنہ کرسکے ان بیشمار صالحیتوں میں سے انسان کو فکر و تدبر کے ساھ سننے ‘ دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے جن کا مقصدیہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے ان بیشمار نعمتوں کو دیکھے جو اس کیچاروں طرف بکھری ہوئی ہیں ‘ کانوں سے حق و صداقت کی باتوں کو سن کر ان پر عمل کرے اور سوچنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیتوں سے ہر حقیقت کی گہرائی تک پہچنے کی جدوجہد کرے۔ جو لوگ ان صلاحیتوں سے کام لیتے ہیں وہ در حقیقت اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور جو لوگ ان نعمتوں کو اپنی جدوجہد ‘ کوششوں اور کاوشوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں وہ کافر ہیں۔ مومن اور کافر میں یہی بنیادی فرق ہے۔ مومن ہر چیز کو اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے یقین کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور کافر ہر بات میں شک و شبہ رکھتا ہے۔ مومن تو یہ کہتا ہے کہ زمین ‘ آسمان ‘ چاند ‘ سورج ‘ ستارے ‘ فضائیں ‘ ہوائیں ‘ شجر وحجر ہر چیز اللہ نے پیدا کی ہیں۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دے گا اور وہی ہڈیوں کا چورہ ہونے اور اجزا کے مٹی میں ملنے کے باوجود قیامت کے دن سب کو دوبارہ زندہکرکے ان کے اعمال کا حساب لے گا۔ مومن دنیا اور آخرت کی ہر چیز کو اللہ کی طرف سے منسوب کرتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میرا خالق ومالک اللہ ہے جس کا کوئی شریک یا برابر نہیں ہے۔ اس کے بر خلاف کا فر اسی شک و شبہ کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ جب ہم مٹی میں مل جائیں گے۔ ہماری ہڈیاں چورہ چورہ ہوجائیں گی تو کیا ہم دوبارہ پیدا کئے جائیں گے۔ کفار کی زبان پر یہی ہوتا ہے کہ ایسا ناممکن ہے کیونکہ ہم سے پہلے جو لوگ گذرے ہیں ان سے بھی ایسی ہی باتیں کی گیں یہ محض گھڑے گھڑائے افسانے اور قصے کہانیاں ہیں۔ مرنے کے عبد قصہ ختم ہوجاتا ہے اور آخرت ‘ جنت ‘ جہنم کی باتیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں ( نعوذ باللہ) ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں کان ‘ آنکھ اور سوچنے کے لئے دل عطا کیا ہے۔ وہی پیدا کرنے والا ہے دنیا میں پھیلانے والا ‘ زندگی اور موت دینے والا ہے ‘ اسی کے اختیار سے دن رات کا آنا جانا ہے اس کائنات میں سارے اختیار ات کا مالک ایک اللہ ہے۔ فرمایا کہ ان کا یہ کہنا کہ جب ہم مرکر مٹی ہوجائیں گے اور ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ جائیں گی تو کیا ہم دوبارہ پیدا کئے جائیں گے۔ فرمایا کہ یہ لوگ اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ اس ززمین و آسمان اور اس کے اندر جو کچھ موجود ہے اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ وہی سات آسمانوں کا اور عرش عظیم کا مالک ہے۔ اس کے دامن میں سب کو پناہ ملتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ اور ایسا با اختیار رہے کہ وہ کسی کا کسی طرح بھی محتاج نہیں ہے۔ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ‘ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا۔ وہ اس پوری کائنات کے نظام کو تنہا چلارہا ہے۔ اگر اللہ کے سوا بھی کوئی دوسرا معبود ہوتا تو اس کا ئنات کا نظام تباہ ہو جاتاکیون کہ ہر ایک اپنی بات چلانے کی کوشش کرتا اور اختیارات کی اس جنگ میں مخلوق فائدے اٹھانے کے بجائے طرح طرح کے نقصانات برداشت کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو غیر اللہ کی عبادت و بندگی میں لگے ہوئے ہیں اگر ان پوچھا جائے کہ یہ سب کچھ تمہارے پتھر کے بےجان بتوں نے پیدا کیا ہے تو وہ یقیناً یہی جواب دیں گے کہ سب کچھ اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے یہی پوچھتے ہیں کہ جب اس کائنات کا خالق ومالک اللہ ہے۔ پھر وہ دوسروں سے کیوں اپنی حاجتوں کا سوال کرتے ہیں اور اپنی آخرت کی فکر کیوں نہیں کرتے جہاں کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا ؟ اور یہ بت بھی اپنے عبادت گذاروں کو نہ بچا سکیں گے۔
Top