Baseerat-e-Quran - Ash-Shu'araa : 141
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
قوم ثمود نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔
لغات القرآن : آیت نمبر 141 تا 159 : اتترکون (کیا تم چھوڑدیئے جائو گے) ‘ ھھنا (اسی جگہ) ‘ زروع (زرع) کھیتیاں ‘ طلع (گابھے ۔ خوشے) ‘ ھضیم (نرم و نازک) ‘ تنحتون (تم تراشتے ہو) ‘ فرھین (خوش ہونیوالے) ‘ المسرفین (حد سے بڑھنے والے) ‘ المسحرین ( جادو کے مارے ہوئے) ناقۃ (اونٹنی) ‘ شرب (پانی پینا) عقروا (انہوں نے پاؤں کاٹ ڈالے) ‘ ندمین (شرمندہ ہونے والے۔ پچھتانے والے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 141 تا 159 : سورۃ الشعراء میں جن سات انبیاء کرام ؐ کے واقعات کو عبرت و نصیحت کے لئے بیان فرمایا گیا ہے ان میں سے چار انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر ہوچکا ہے۔ اب قوم ثمود کے حضرت صالح (علیہ السلام) کا ذکر مبارک کیا جارہا ہے۔ قوم عاد کی طرح قوم ثمود کے لوگ بھی بہت زیادہ صحت مند ‘ طویل عمروں والے ‘ لمبے چوڑے ‘ مضبوط اور طاقتور تھے۔ جنہیں ہر طرح کی خوش حالی عطا کی گئی تھی۔ ہر طرف سر سز و شاداب باغات کھیت ‘ باغیچے ‘ چشمے ‘ بلندو بالا عمارتیں اور دولت کی ریل پیل تھی۔ جس نے ان کو مغرور اور متکبر اور زندگی کی عیش و آرام اور اس کے وسائل نے ان کو آرام طلب بھی بنادیا تھا۔ قوم ثمود دنیا بھر سے تجارت کرنے اور فن تعمیر میں ساری دنیا سے بہت آگے تھے۔ پتھروں کو تراش کر اور پہاڑوں کو کاٹ کر نہایت شاندار اور مضبوط بلڈنگیں بنننے کے ماہر تھے۔ ہمار دور میں تو دس بیس منزلہ بلڈنگوں کی تعمیر کوئی ایسی حیرت انگیز بات نہیں ہے کیونکہ ان سے بھی زیادہ اونچی عمارتیں بنانے کے تمام وسائل موجود ہیں لیکن اس دور میں بیس بیس منزلہ عمارتیں بنانا یقیناً حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ لیکن تمام مادی ترقیات کے باوجود وہ اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کی اور کائنات کی سیکڑوں چیزوں کی عبادت و پرستش کرتے وقت بےعملی کا مظاہرہ کرتے اور انکو انپا معبود سمجھتے تھے۔ قوم عاد تو اللہ کی ذات اور ہستی کو مانتے تھے ‘ انکار نہ کرتے تھے وہ بتوں کو اپنا سفارشی سممجھتے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ اگر یہ بت اللہ کے پاس ہماری سفارش نہ کریں تو ہمارا کوئی کام صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس کے بر، خلاف قوم ثمود اللہ کی ہستی کا انکار کرتے اور بتوں کو اپنا معبود سمجھتے تھے۔ قوم عاد کی تباہی کے بعد ان کی جگہ قوم ثمود نے لی جن کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) ثمود ہی کی قوم اور قبیلے کی جانی پہچانی معتبر اور قابل اعتماد شخصیت تھے۔ ہر شخص ان کی دیانت وامانت ‘ نیکی ‘ پرہیز گاری اور عقل و فہم کو اچھی طرح جانتا ھتا بلکہ ان سے بہت اچھی توقعات بھی رکھتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے اس بگڑی ہوئی قوم کو اس بات کی نصیحت فرمائی کہ وہ اپنی روش زندگی پر غور کریں۔ اللہ نے جن نعمتوں سے نواز رکھا ہے اس پر وہ اللہ کا شکرادا کریں۔ اسی کی عبادت و بندگی کریں۔ بےحقیقت لکڑی ‘ پتھر کے بتوں کی عبادت چھوڑدیں۔ حضرت صالح نے فرمایا کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا دیانتدار رسول ہوں۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت و فرماں برداری کرو۔ میں یہ سب کچھ اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ مجھے تم سے اس کا کوئی بدلہ یا صلہ چاہیے کیونکہ میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمے ہے۔ میں تو تمہاری خیر خواہی کرتے ہوئے یہی کہتا ہوں کہ اللہ نے تمہیں بہتے چشمے ‘ حسین و خوبصورت باغات ‘ لہلہاتے کھیت ‘ پھل پھول ‘ سبزہ ‘ دنیاوی مال و دولت اور بےانتہا صالاحیتیں عطا کی ہیں ان کا یہ حق ہے کہ مالک کے سامنے جھکا جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے۔ تمہیں اللہ نیتعمیر کرنے کا عظیم فن عطا کیا ہے کہ تم پہاڑوں کو تراش تراش کر بھر بناتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ میرا کہا مانو کیونکہ میں تمہارا مخلص ہوں خیر خواہ ہوں۔ اگر تم ان لوگوں کی باتیں مانتے رہے جن کا کام صرف فساد کرنا اور تباہی مچانا ہے جو ہر کام میں حد سے گزر جاتے ہیں تو تمہیں کبھی کوئی بھلائی نصیب نہ ہوگئی تم ان کے پیچھے نہ چلو۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی تمام باتیں سن کر کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہے بس وہ اس دنیا کی زندگی ہے۔ اس کے بعد کچھ نہیں ہے۔ مرکر دوبارہ زندہ ہونا یہ بات ہماری عقل میں نہیں آتی۔ ہم اسی مٹی پیدا ہوئے اور مرنے کے بعد اسی خاک کا پیوند ہوجائیں گے۔ وہ کہتے تھے اے صالح ایسا لگتا ہے کہ کسی نے تمہارے اوپر جادو کردیا ہے اس لئے یہ بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔ ہم تمہاری کسی بات کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آخر تمہارے اندر وہ کونسی خاص بات ہے جس کی بناء پر ہم یہ مان لیں کہ تم اللہ کے رسول ہو ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ تم ہمارے ہی جیسے آدمی ہو یعنی اگر اللہ کو اپنا رسول بنا کر بھیجنا تھا تو کسی فرشتے کو بھیج دیتے ۔ اچھا اگر تم واقعی اللہ کے بھیجے ہوئے ہو تو ہمیں کوئی ایسی نشانی دکھائو جس کو دیکھ کر ہم یقین کرلیں کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ بالکل سچ ہے۔ کہنے لگے کہ اگر تم واقعی سچے ہو تو یہ سامنے جو پہاڑ ہے اس سے ایک گابھن اونٹنی نکلے اور وہ نکلتے ہی بچہ دے۔ اگر ایسا ہوا تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ کی بار گاہ میں پوری صورت حال اور ان کے مطالبے کو پیش کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کے مطالبے پر پہاڑی چٹان سے گابھن اونٹنی کو نکالا۔ اس نے آتے ہی بچہ دیا۔ یہ ایک ایسا کھلا ہوا معجزہ تھا جس کے دیکھنے کے بعد ہر شخصکو ایمان لے آنا چاہیے تھا مگر چند لوگوں کے سوا سب نے طرح طرح کے بہانے بنانا شروع کردیئے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کا حکم ہے کہ یہ اونٹنی اور اس کا بچہ ایک دن تمہارے کنویں سے پانی پئیں گے اس دن تم اور تمہارے مویشی پانی نہیں پئیں گے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ یہ اونٹنی اللہ کی طرف سے ایک معجزہ ہے اگر کسی نے بری نیت سے اس کو ہاتھ لگایا یا ذبح کیا تو پھر پوری قوم اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکے گی۔ قوم ثمود نے حضرت صالح کی تمام باتیں اور شرطیں سن کر کچھ دن تو صبر سے کام لیا لیکنک جب اس طرح پانی کقلت ہوئی اور ان کے مویشی شدید متاثر ہوئے تو انہوں نے اس اونٹنی کو مارڈالنے کی سازشیں شروع کردیں۔ ایک دن ثمود کی قوم کے ایک شخص نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں جس سے وہ مرگئی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو اس کا شدید افسوس ہوامگر اب کچھ نہ ہو سکتا تھا چناچہ انہوں نے اعلان فرمادیا کہ اب اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس لئے تمہیں صرف تین دن کی مہلت دی جارہی ہے اس میں تم عیش کرلو اس کے بعد اللہ کا فیصلہ آنے والا ہے۔ اللہ کا عذاب آنے سے پہلے علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئیں۔ پہلے دن پوری قوم کے چہرے زرد پڑگئے۔ دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ پڑگئے۔ اس کے بعد زمین ہلنا شروع ہوگئی۔ زبردست جھٹکے محسوس کئے جانے لگے۔ اس کے بعد ایسی ہیبت ناک چیخ سنائی دی جس سے ان پر خوف طاری ہوگیا اور ان کے دل کی دھڑکنیں بند ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے حضرت صالح (علیہ السلام) اور آپ کی بات مان کر ایمان لانے والوں کو اس عذاب سے نجات عطا فرمائی۔ ان کے علاوہ پوری قوم فنا کے گھاٹ اتاردی گئی۔ اس طرح دنیا کی خوش حال قوم اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ کے غضب کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہوگئی۔ یہ جگہ آج بھی مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان کا مشہور علاقہ ہے جو الحجر اور مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے۔ آج اس قوم کے کھنڈرات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ جو قوم دنیاوی ترقیات میں بد مست ہو کر اللہ کی نافرمانی کرتی ہے تو اس کو اسی طرح موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو پھر دنیاوی ترقیات ‘ بلند اور اونچی بلڈنگیں ‘ تہذیب و تمدن ان کے ام نہیں آیا کرتا۔ ان آیات اور واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر ان دو آیات کو دھرایا ہے کے اس واقعہ میں عبرت و نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے نشانیاں موجود ہیں۔ لیکن ان نشانیوں ( معجزات) کو دیکھنے کے باوجود ضروری نہیں ہے۔ کہ لوگ ایمان لے ہی آئیں۔ اسی لئے اکثر لوگ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ فرمایا کہ اللہ جو زبردست قوت و طاقت کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کی قوت و طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی چونکہ وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے اور ان کی فوراً ہی گرفت نہیں کرتا اور ان کو مہلت پر مہلت دیئے چلا جاتا ہے تاکہ وہ اصل حقیقت کو سمجھ کر اللہ پر ایمان لے آئیں لیکن اگر بار بار کی آگاہی کی باوجود وہ اپنی روش زندگی تبدیل نہیں کرتے تو پھر اس قوم پر اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے جس سے بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے جان نثار صحابہ کرام ؓ کو تسلی دی گئی ہے کہ وہ کفار کی اذیتوں اور انکار پر رنجیدہ نہ ہوں بلکہ اپنے ایمان و عمل صالح میں آگے بڑھتے رہیں۔ اگر کفار مکہ نے اپنی اس روش کو برقرار رکھا تو وہ وقت دور نہیں ہے جب ان کے لئے اللہ کا فیصلہ آجائے گا۔
Top