Baseerat-e-Quran - Al-Qasas : 79
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ١ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پر (سامنے) قَوْمِهٖ : اپنی قوم فِيْ : میں (ساتھ) زِيْنَتِهٖ : اپنی زیب و زینت قَالَ : کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُرِيْدُوْنَ : چاہتے تھے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی يٰلَيْتَ : اے کاش لَنَا مِثْلَ : ہمارے پاس ہوتا ایسا مَآ اُوْتِيَ : جو دیا گیا قَارُوْنُ : قارون اِنَّهٗ : بیشک وہ لَذُوْ حَظٍّ : نصیب والا عَظِيْمٍ : بڑا
پھر وہ (ایک دن) اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا۔ وہ لوگ جو دنیاوی زندگی کے خواہش مند تھے کہنے لگے کاش ہمیں بھی وہ سازو سامان ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ بلا شہ وہ تو بہت خوش نصیب ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر (79 تا 82 ) ۔ خرج (وہ نکلا) ۔ زینتہ (زیب وزینت۔ خوبصورتی) ۔ یلیت (اے کاس ایسا ہوتا) ۔ ذوحظ (نصیب والا۔ جوش نصیب) ۔ ویلکم (تمہاری خرابی۔ تم پر افسوس ہے) ۔ لا یلقی (وہ نہیں ملتا۔ نصیب نہیں ہوتا) ۔ خسفنا (ہم نے دھنسادیا) ۔ فئتہ (جماعت۔ گروہ ) ۔ تمنوا (تمنا کی تھی) ۔ ویکان (ہائے شامت۔ ہائے افسوس) ۔ من (اس نے احسان کیا) ۔ تشریح : آیت نمبر (79 تا 82 ) ۔ ” اگر ایمان اور عمل صالح نہ ہو تو مال و دولت کا نشہ آدمی لو دیوانوں جیسی حرکتیں کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ قارون جو نہایت چالاک، عیار اور دولت پرست آدمی تھا وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف ہر ممکن سازشیں کرتا رہتا تھا تاکہ ان کو نیچا دکھائے۔ اس نے نہایت نازیباحرکتیں کرنا شروع کردیں۔ اس نے کسی فاحشہ عورت کو کچھ دے دلا کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بھرے مجمع میں زنا کا الزام لگا دے۔ چناچہ جب اس عورت نے سب کے سامنے اتنا الزام لگایا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو قسم دے کر پوچھا کہ وہ بتائے کیا ان سے یہ گناہ ہوا ہے۔ اس عورت کو اللہ نے ہدایت دی اس نے بتا دیا کہ قارون نے اس کو یہ الزام لگانے پر مجبور کیا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی وقت اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا دیئے۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کو سزا دینے کا فیصلہ فرمالیا۔ ایک دن وہ اپنے مال و دولت کا رعب جمانے کے لئے اپنے مال و دولت اور اپنے لا تعداد خادموں کو لے کر بڑہ شان و شوکت سے اتارتا اکڑتا نکلا۔ جو لوگ دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ان ہی میں سے دنیا پسندوں نے بڑی حسرت اور رشک کی نگاہوں سے قارون اور اس کے خزانوں کو دیکھ کر اس تمنا کا اظہار کیا۔ کاش ان کے پاس بھی اسی طرح دولت کے ڈھیر ہوتے۔ واقعی قارون بہت ہی جوش نصیب آدمی ہے۔ اس کے بر خلاف اللہ نے جن لوگوں کو علم و بصیرت اور دین کی سمجھ عطا فرمائی تھی جو وقتی چمک دمک کو دیکھ کر بےقابو نہیں ہوجاتے انہوں نے قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم پر بڑا افسوس ہے کہ تم اس سامان زندگی کو بھلا بیٹھے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے تیار کر رکھا ہے جو ان بےحقیقت چیزوں سے کہیں بہتر ہے اور یہ ان کو نصیب ہوتا ہے جو صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بد دعا کو قبول کر کے قارون کو تباہ و برباد کرنے کا فیصلہ فرمالیا تھا۔ چناچہ اللہ نے قارون، اس کے خادموں، ساتھیوں اور اس کے زبردست خزانوں سمیت ان کو زمین میں دھنسادیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کو نچانے کے لئے کوئی جماعت اس کی مدد کے لئے آئی اور نہ وہ خود اپنے آپ کو اور اپنی دولت کو بچا سکا اور اس طرح اس کا مال و دولت بھی اس کے کام نہ آسکا۔ جب دنیا پسندوں نے قارون کا یہ حشر اور انجام دیکھا تو لینے لگے کہ کھا رزق یا نپا تلا رزق یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے وہ جس کو جتنا دینا چاہے دیتا ہے اگر اس اللہ کا ہم پر کرم اور احسان نہ ہوتا تو ہم بھی قارون کے ساتھ اسی طرح زمین میں دھنسا دیئے جاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ جو کفر کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں ان کو کبھی فلاح و کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔
Top