Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 51
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُؤْمِنُوْنَ : وہ مانتے ہیں بِالْجِبْتِ : بت (جمع) وَالطَّاغُوْتِ : اور سرکش (شیطان) وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ اَهْدٰى : راہ راست پر مِنَ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) سَبِيْلًا : راہ
اے نبی ﷺ ! کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا جنہیں آسمانی کتاب سے ایک حصہ دیا گیا تھا یہ لوگ اس کے باوجود بتوں پر اور شیطانوں پر ایمان لاتے ہیں اور یہ کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ کفار مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔
آیت نمبر 51-57 لغات القرآن : الجبت، بت، ساحر، دیوتا، اوھام۔ الطاغوت، شیطان (اور شیطانی قوتیں) ۔ اھدی، زیادہ ہدایت پر۔ لایؤتون، وہ نہیں دیں گے۔ نقیر، تل برابر، ذرہ برابر۔ یحسدون، وہ حسد کرتے ہیں، جلتے ہیں۔ صد، وہ رک گیا۔ نضجت، جل گئی (جل جائیں گی) ۔ جلود، کھالیں، (بدن کی کھال) ۔ لیذوقوا، تاکہ وہ چکھیں۔ ظلال ظلیلا، گھنا سایہ، گھنی چھاؤں۔ تشریح : یہود کے علماء کا ذکر ہے ۔ بیشک وہ الکتاب کا علم رکھتے تھے مگر مختصر، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ علم ایمان کی گارنٹی نہیں ہے یعنی ضروری نہیں ہے کہ عالم مومن بھی ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ دنیاوی علوم کے ماہر ہوتے ہیں مگر وہ عقیدہ کی بہت سی گندگیوں میں ملوث ہوتے ہیں ۔ اور شیطانوں کے راستے اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں اور دین کا بہت مختصر علم رکھتے ہیں۔ مختصر علم رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ یا تو ساری کتاب پر حاوی نہیں ہوتے۔ بس ادھر ادھر سے کچھ پڑھ پڑھا کر اپنا کلام چلا لیتے ہیں ۔ اس کے یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ وہ سطحی مطالعہ کرتے ہیں۔ حقیقت کی روح اور گہرائی تک نہیں پہنچتے۔ اس کے دو ثبوت دئیے گئے ہیں کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں۔ دوسرے یہ کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مومنوں کے مقابلے میں زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔ جبت اور طاغوت کیا ہیں ؟ حضرت عمر ؓ کا قول ہے کہ جبت سے مراد سحر ہے اور طاغوت سے مراد شیطان۔ یعنی اللہ کے سوا جس کی بھی عبادت اور پرستش کی جائے اسے جبت یا طاغوت کہتے ہیں۔ جبت ایک بت تھا۔ آگے چل کر اس کے معنی غیر اللہ اور معبود کے ہوگئے۔ جبت اور طاغوت تقریبا ہم معنی الفاظ ہیں۔ جن لوگوں پر اللہ کی پھٹکار ہے ان میں وہ بھی شامل ہیں جو کم علمی بلکہ کم عقلی کی وجہ سے شرک کرتے ہیں اور شیطان کی پیروی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کفار زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔ یہاں پر لعنت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس پر اللہ لعنت کر دے پھر اس کا کوئی مددگار نہیں۔ ملعونوں کے متعلق ایک جگہ قرآن میں فرمایا ہے کہ ” جن پر اللہ کی لعنت ہے وہ جہاں کہیں بھی ملیں ان کی گردن اڑا دی جائے “ ۔ یہود اسلام کے اتنے دشمن کیوں تھے ؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ وہ حسد کر رہے ہیں کیوں کہ نبوت اور سلطنت بنی اسمعیل کے حصہ میں آگئی ہے جب کہ ان کے گمان کے مطابق اسے بنی اسرائیل کے حصہ میں آنا چاہئے تھا۔ اس کا جواب صاف صاف یہ ہے کہ اللہ نے کتاب اور ملک عظیم تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بخشی تھی۔ اور اس کے بعد ان کی مومن اولاد کو۔ اب بنی اسمعیل نے ایمان کو قبول کرلیا ہے اور بنی اسرائیل کافر ہی رہ گئے۔ بنی اسرائیل کی کنجوسی کا حال یہ ہے کہ اگر اللہ صرف انہیں ہی مال و دولت اور سلطنت سے نوازتا تو دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے۔ کافروں کو عذاب کی وعید دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آیت 56 میں نقشہ کھینچا ہے کہ جہنم میں کیا کچھ ہوگا۔ فرمایا ہے کہ جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی اور اس میں حس پیدا ہوجائے گی تو اس گلی ہوئی کھال کی جگہ تازہ کھال پہنا دی جائے گی تاکہ جلنے کا احساس قائم رہے حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ یہ کھال کی تبدیلی دن میں ستر ہزار بار ہوگی اور ہر دن ہوگی ہمیشہ ہمیشہ۔ آیت نمبر 57 میں جنت کی جھلک دکھائی گئی ہے ۔ یہ جنت ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو ایمان بھی لائیں گے اور ایمان کی تصدیق میں عمل صالح بھی پیش کریں گے۔ ایسے لوگ ان باغوں میں داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہاں وہ ابدالا باد تک یعنی ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے لئے وہ بیویاں ہوں گی جن کا ظاہر بھی پاک ہوگا اور باطن بھی۔ اور اس جنت میں بہترین درخت ہوں گے اور ان کی گھنی گھنی چھاؤں ہوگی۔
Top