Ahsan-ul-Bayan - An-Nisaa : 61
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَ قِثَّآئِهَا وَ فُوْمِهَا وَ عَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا١ؕ قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِیْ هُوَ خَیْرٌ١ؕ اِهْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ١ؕ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ١ۗ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۠   ۧ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسٰى : اے موسیٰ لَنْ نَصْبِرَ : ہم ہرگز صبر نہ کریں گے عَلٰى طَعَامٍ : کھانے پر وَاحِدٍ : ایک فَادْعُ : دعا کریں لَنَا : ہمارے لئے رَبَّکَ : اپنا رب يُخْرِجْ : نکالے لَنَا : ہمارے لئے مِمَّا : اس سے جو تُنْبِتُ : اگاتی ہے الْاَرْضُ : زمین مِنْ : سے (کچھ) بَقْلِهَا : ترکاری وَقِثَّائِهَا : اور ککڑی وَفُوْمِهَا : اور گندم وَعَدَسِهَا : اور مسور وَبَصَلِهَا : اور پیاز قَالَ : اس نے کہا اَتَسْتَبْدِلُوْنَ : کیا تم بدلنا چاہتے ہو الَّذِیْ : جو کہ هُوْ اَدْنٰی : وہ ادنی بِالَّذِیْ : اس سے جو هُوْ : وہ خَيْرٌ : بہتر ہے اهْبِطُوْا : تم اترو مِصْرًا : شہر فَاِنَّ : پس بیشک لَكُمْ : تمہارے لئے مَّا سَاَلْتُمْ : جو تم مانگتے ہو وَضُرِبَتْ : اور ڈالدی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت وَالْمَسْکَنَةُ : اور محتاجی وَبَآءُوْا : اور وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِنَ اللہِ : اللہ کے ذٰلِکَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ کَانُوْا يَكْفُرُوْنَ : جو انکار کرتے تھے بِاٰيَاتِ اللہِ : اللہ کی آیتوں کا وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے النَّبِيِّیْنَ : نبیوں کا بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق ذٰلِکَ : یہ بِمَا : اس لئے کہ عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّکَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھنے والوں میں
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہو سکے گا، اس لئے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گہیوں مسور اور پیاز دے آپ نے فرمایا بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو ! اچھا شہر میں جاؤ وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی (1)۔ ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے (2) یہ اسلئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے نبیوں کو ناحق تنگ کرتے (3) تھے، ان کی نافرمانیاں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے (4
61۔ 1 یہ قصہ اسی میدان تیہ کا ہے۔ مصر سے مراد یہاں مصر نہیں بلکہ کوئی ایک شہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں سے کسی بھی شہر میں چلے جاؤ اور وہاں کھیتی باڑی کرو اپنی پسند کی سبزیاں، دالیں اگاؤ اور کھاؤ انکا یہ مطالبہ چونکہ کفران نعمت تھا۔ ان سے کہا گیا تمہارے لئے وہاں پر مطلوبہ چیزیں ہیں۔ 61۔ 2 کہاں وہ انعامات و احسانات، جس کی تفصیل گزری ؟ اور کہاں وہ ذلت و مسکنت جو بعد میں ان پر مسلط کردی گئی اور وہ غضب الٰہی کے مصداق بن گئے، غضب بھی رحمت کی طرح اللہ کی صفت ہے جس کی تاویل ارادہ عقوبیت یا نفس عقوبیت سے کرنا صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر غضب ناک ہوا۔ 61۔ 3 یہ ذلت اور غضب الٰہی کی وجہ بیان کی جا رہی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار اور اللہ کی طرف بلانے والے انبیاء ؑ اور ان کی تذلیل واہانت، یہ غضب الٰہی کا باعث ہے۔ کل یہودی اس کا ارتکاب کرکے مغضوب اور ذلیل و رسوا ہوئے تو آج اس کا ارتکاب کرنے والے کس طرح معزز اور سرخرو ہوسکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہوں کہیں بھی ہوں ؟ 61۔ 4 یہ ذلت و مسکنت کی دوسری وجہ ہے۔ عَصَوْ (نافرمانی کی) کا مطلب جن کاموں سے انہیں روکا گیا تھا ان کا ارتکاب کیا۔ اطاعت اور فرمانبرداری یہ ہے جسطرح حکم دیا گیا ہو۔ اپنی طرف سے کمی بیشی یہ زیادتی (اعتداء) ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔
Top