Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 61
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَ قِثَّآئِهَا وَ فُوْمِهَا وَ عَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا١ؕ قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِیْ هُوَ خَیْرٌ١ؕ اِهْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ١ؕ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ١ۗ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۠   ۧ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسٰى : اے موسیٰ لَنْ نَصْبِرَ : ہم ہرگز صبر نہ کریں گے عَلٰى طَعَامٍ : کھانے پر وَاحِدٍ : ایک فَادْعُ : دعا کریں لَنَا : ہمارے لئے رَبَّکَ : اپنا رب يُخْرِجْ : نکالے لَنَا : ہمارے لئے مِمَّا : اس سے جو تُنْبِتُ : اگاتی ہے الْاَرْضُ : زمین مِنْ : سے (کچھ) بَقْلِهَا : ترکاری وَقِثَّائِهَا : اور ککڑی وَفُوْمِهَا : اور گندم وَعَدَسِهَا : اور مسور وَبَصَلِهَا : اور پیاز قَالَ : اس نے کہا اَتَسْتَبْدِلُوْنَ : کیا تم بدلنا چاہتے ہو الَّذِیْ : جو کہ هُوْ اَدْنٰی : وہ ادنی بِالَّذِیْ : اس سے جو هُوْ : وہ خَيْرٌ : بہتر ہے اهْبِطُوْا : تم اترو مِصْرًا : شہر فَاِنَّ : پس بیشک لَكُمْ : تمہارے لئے مَّا سَاَلْتُمْ : جو تم مانگتے ہو وَضُرِبَتْ : اور ڈالدی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت وَالْمَسْکَنَةُ : اور محتاجی وَبَآءُوْا : اور وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِنَ اللہِ : اللہ کے ذٰلِکَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ کَانُوْا يَكْفُرُوْنَ : جو انکار کرتے تھے بِاٰيَاتِ اللہِ : اللہ کی آیتوں کا وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے النَّبِيِّیْنَ : نبیوں کا بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق ذٰلِکَ : یہ بِمَا : اس لئے کہ عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّکَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھنے والوں میں
پھر تم نے موسیٰ سے کہہ دیا کہ ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک طرح کے کھانے پر قناعت کرلیں پس تم اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ ہمارے لیے وہ سب چیزیں پیدا فرما دے جو زمین کی پیداوار کہلاتی ہیں یعنی ترکاری ، گیہوں ، دال ، پیاز وغیرہ (جو مصر میں ہم کھایا کرتے تھے) موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سن کر کہا (افسوس تم پر) کیا تم ایک ادنیٰ سی بات کی طلب کرتے ہو اعلیٰ کے بدلے جس میں بڑی ہی خیر و برکت ہے ؟ اگر ایسی بات ہے تو یہاں سے نکلو کسی شہر کی راہ لو وہاں تم کو یہ تمام چیزیں مل جائیں گی جن کے لیے تم ترس رہے ہو ، پھر ان پر خواری و نامرادی کی مار پڑی اور وہ اللہ کے غضب کے سزاوار ہوئے اور یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور انبیاء (علیہ السلام) کے ناحق قتل میں بیباک ہوچکے تھے اور وہ تمام حدیں توڑ کر بےلگام ہوگئے تھے
یادِ رفتہ : 125: آزادی کے بعد بنی اسرائیل ایک بار شہر کی زندگی دیکھ چکے تھے۔ تمدن و عیش پرستی اور آرام و آسائش کے جس قدر سامان شہر میں میسر آسکتے تھے وہ ریگستان اور جنگل میں کہاں ؟ ان کا ملنا تو فی الوقع نا ممکنات میں سے تھا۔ اس سادگی میں وہ لوازمات کیسے پورے ہو سکتے تھے اب وہ اس سادہ زندگی پر قناعت نہیں کرسکتے اور آخر کار ان سے نہ رہا گیا وہ گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی لیکن وہ جو کام کرتے تھے بےسوچے سمجھے ، اور ان کا جو مطالبہ ہوتا وہ بےوقت ہی ہوتا۔ ان کو ریگستان میں کیوں رکھا گیا ؟ وہ جنگلات میں دھکے کیوں کھاتے رہے ؟ دراصل ان کو ارض مقدس پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا جارہا تھا۔ اس کے لئے ضرورت تھی سپاہیانہ زندگی کی۔ اب جو انہوں نے اپنے مطالبات پیش کئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ ابھی تمہارے لئے بہتر یہی ہے۔ جن چیزوں کی تمہیں تلاش ہے ان سے تمہاری بدویانہ زندگی کو نقصان پہنچے گا مگر جب وہ کسی طرح نہ مانے تو ان سے کہہ دیا گیا کہ جن چیزوں کا تم مطالبہ کرتے ہو وہ کسی شہری آبادی ہی میں رہ کر میسر آسکتی ہیں وہاں رہ کر کاشتکاری کرو کیونکہ ان سب چیزوں کا اسی شعبہ سے تعلق ہے۔ ان کی اصل طلب کیا تھی ؟ 126: ان کی اصل طلب زمین کی پیداوار تھی جو کبھی مصر کی شہری زندگی میں کھایا کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا مطلوب یہ بھی تھا کہ ان کو کسی طرح کی محنت و مشقت نہ کرنی پڑے وہ چاہتے تھے کہ خالی دعاؤں سے کام چلے۔ موسیٰ (علیہ السلام) دعا کریں تو ہر قسم کے غلہ جات آموجود ہوں ، موسیٰ (علیہ السلام) دعا کریں تو ہر قسم کی ترکاریاں کچی کھانے والی اور پکا کر کھانے والی ہمارے سامنے رکھی ہوں۔ موسیٰ (علیہ السلام) دعا کریں تو ہر طرح کا ساگ پات اور سلاد قسم کی چیزیں اور چٹنیاں ہمارے لئے تیار ہوجائیں۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) دعا کریں ہر قسم کے مصالحہ جات اور دالیں اور طرح طرح کے پھل فروٹ ہمارے دستر خوان پر چُن دیئے جائیں یعنی ہر ناممکن وہ ممکن دیکھنا چاہتے تھے۔ تساہل کی ماری اور کم ہمت قومیں اسی طرح شیخ چلی کے تصورات میں گم رہتی ہیں۔ دراصل وہ کچھ کر کے دکھانا نہیں چاہتے تھے۔ ان کی تمنا تھی تو صرف یہ تھی کہ ہمیں سب کچھ کیا کرایا مل جائے۔ حالانکہ یہ سنت اللہ کے خلاف ہے۔ وہ ایک ہی طرح کے کھانے سے اکتا گئے تھے وہ ان کو بغیر محنت و مشقت مل رہا تھا وہ چاہتے تھے کہ کھانے بھی ہماری مرضی کے ہوں اور محنت و مشقت بھی اس سلسلہ میں کچھ نہ کرنی پڑے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے تو انہیں سمجھایا کہ تمہاری فرمائش بےجا ہے ، نامعقول ہے۔ جب دیکھا کہ اصرار سے باز نہیں آتے تو پھر یہ کہا کہ اچھا اگر یہ منظور ہے تو شہری تمدن اختیار کرلو۔ ساری گفتگو سمجھنے کے لئے قوم اسرائیل کے اس وقت کے طرز معاشرت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ صورت حال یہ ہے کہ مصر جیسے متمدن و مہذب ملک سے لاکھوں کی تعداد میں یہ لوگ نکل تو آئے ہیں لیکن ابھی دوسرے مہذب و متمدن ملک اور اپنے قدیم وطن یعنی فلسطین تک پہنچ نہیں پائے بلکہ دونوں کے درمیان جزیرہ نمائے سینا کے بیاباں میں معلق ہیں یہ علاقہ اس وقت تک غیر متمدن تھا۔ باغ ، عمارتیں ، کھیت دور دور تک موجود نہیں تھے اس لئے ان کی دلی تمنا شہری آبادی کی تھی ان کو کہا جارہا ہے کہ مصر میں اترو۔ مصر سے مراد ، شہر مصر نہیں بلکہ کوئی آباد جگہ ہے یعنی اس بیابان کے خاتمہ کے بعد جہاں آبادی موجود ہے۔ پھر شہری زندگی کا یہ لازمی نتیجہ تھا کہ ان میں کاہلی اور سستی پیدا ہوتی چناچہ ان کے قوائے عملیہ آہستہ آہستہ بیکار ہوتے گئے اور آخر نتیجہ اس کاہلی اور سستی کا وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ وہ ذلت و مسکنت کے مستحق ہوگئے : 127: اس آیت میں قوم اسرائیل کی چند باتیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے ہر ایک دوسری کے لئے علت اور سبب بن رہی ہے۔ سب سے پہلے فرمایا کہ ان پر ذلت و مسکنت طاری کردی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں آگئے یہ مصائب اس لئے نازل ہوئے کہ کفربایات اللہ اور قتل انبیاء کے مرتکب ہوئے تھے اور ان سب امراض کے اسباب یہ تھے کہ ان کے اندر عصیان وعدوان کی خرابیاں پیدا ہوچکی تھیں جن کی تفصیل اس طرح ہے : ان کی ذلت و مسکنت کی تفسیر خود قرآن کریم نے دوسری جگہ کردی ہے۔ فرمایا : ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ 1ؕ (آل عمران 3 : 112) ” یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی ، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے ، یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کردی گئی ہے۔ “ یہاں ذلت کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے کہ وہ دوسروں کے محکوم رہیں گے اور کبھی ان کو براہ راست حکومت نہ ملے گی ، ہاں کہیں کچھ ملے گا بھی تو وہ دوسروں کے سہارے پر اور ان کی یہ حالت کیوں ہوئی ؟ اس لئے کہ انہوں نے اپنی حالت کے بدلنے کی کبھی کوشش ہی نہ کی۔ بات واضح ہوگئی کہ ذلت سے مراد غلامی و محکومی ، وہ حسی ہو یا معنوی۔ لیکن کاش کہ آج ان کی اس حالت کو بیان کرنے والے خود اس حالت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ مسکنت دراصل ذلت کا آخری رزلٹ ہے یعنی وہ کتنے ہی دولت مند کیوں نہ ہوں۔ فقر و تنگدستی کا اظہار کریں گے یعنی وہ صاحب ثروت ہو کر بھی فقر و فاقہ ہی کی سی حالت بنائے رکھیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ مال کے غنی ہوں گے بھی تو دل کے غنی کبھی نہیں ہوسکتے۔ ملائیت ان کی گھٹی میں پڑچکی ہے۔ اس لئے کہ لاکھوں پتی ہونے کے باوجود مانگنے ہی کی سی صورت بنائے رکھنا ملائیت ہے۔ وہ لاکھوں پتی ہوگا لیکن ہر کسی سے مانگے گا ، ہرچیز مانگے گا اور ہر وقت مانگے گا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ہم مانگنے ہی کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا : 128: یہاں ذکر کسی خاص موقع کا نہیں بلکہ یہاں یہ کیا جا رہا ہے کہ وہ انکار کرنے کے عادی ہوچکے تھے انکار حسی ہو یا انکار معنوی۔ انکار قولی ہو یا عملی۔ یعنی انکار کو تو انہوں نے اپنا شیوہ ہی بنالیا تھا گویا یہ ان کی قومی خصلت کے طور پر بیان کیا جارہا ہے۔ ان کو جب موقع ملا احکام الٰہی کی نافرمانی کی ، اس کی آیات کا انکار ہی کیا اور اس کے ارشادات کا تمسخر ہی اڑایا اور استہزاء ہی کیا۔ پھر اس انکار کا جو نتیجہ مرتب ہونا تھا وہ ہمیشہ ہو کر رہا۔ ان کے تمسخر اور استہزاء کا وبال خود انہیں پر پڑا کہ پوری قوم کی قوم دن بدن انحطاط پذیر ہوتی گئی۔ یہاں ایک بات دیکھنے کی ہے کہ کیا اس وقت قوم مسلم اسی بیماری میں تو مبتلا نہیں ہو رہی ؟ انبیاء کو قتل کرنا ان کا شیوہ ہوگیا : 129: قوم یہود کی ایک یہ گمراہی بھی تھی کہ وہ انبیاء (علیہ السلام) کو قتل کردیتے تھے اس جرم کے وہ مرتکب کیوں ہوتے ؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نبی کی بعثت کس لئے ہوتی تھی چناچہ قرآن کریم نے کہا : ” ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر نور یعنی روشنی میں لے آئو۔ “ (ابراہیم 14 : 5) سورۃ الاعراف میں مختلف پیغمبروں کا ذکر کیا اور ان کی دعوت کا مقصد اصلی یہ بیان کیا کہ : یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ 1ؕ (الاعراف 7 : 73) ” اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کے سوا تمام معبودان باطل کی غلامی سے انکار کرو۔ “ ان سب تصریحات سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہر نبی کی زندگی کا مقصد وحید اپنی امت کی اصلاح و تجدید ہوتی تھی۔ وہ اپنے ساتھ ایک تحریک لے کر آتا تھا۔ اسی کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی تمام سعی و کوشش وقف کردیتا تھا۔ اسے اپنی جان کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ مخالفین اگر اس کی زندگی کے درپے ہوتے تو اس لئے نہیں کہ انہیں اس کے خون اور گوشت کے ساتھ دشمنی ہوتی تھی بلکہ اس لئے کہ اس کے وجود سے وہ تحریک خاتم ہے اگر اس کو جان سے مار ڈالیں گے تو ضرور وہ تحریک بھی فنا ہوجائے گی۔ یہودیوں نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا تو صرف اس لئے کہ وہ ان کو ان کی غلط کاریوں پر متنبہ کرتے تھے اور ان کی اصلاح کے آرزو مند تھے یہ لوگ اس غلط گمان میں مبتلا تھے کہ اگر ہم نے ان کو مار ڈالا تو یہ سلسلہ اصلاح و تجدید بھی ان کے ساتھ ہی فنا ہوجائے گا۔ پس اب یہ حقیقت کسی دلیل کی محتاج نہ رہی کہ نبی کا جان سے مار ڈالنا اور اس کی تحریک کو فنا کردینا دونوں ایک ہی ہیں۔ اگر ایک شخص نبی کا نام تو عزت و تکریم سے لیتا ہے مگر اس کے طریق عمل کو مٹا رہا ہے تو یہ بھی دراصل قتل نبی ہی کا مرتکب ہورہا ہے اور حدیث کی یہ وعید اس کے لئے تازیانہ عبرت کا کام دیتی ہے۔ امام احمد اپنی مسند میں عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ : اشد الناس عذابا رجل قتلہ نبی او قتل بیا او امام ضلالۃ ۔ کہ اللہ کے شدید عذاب کا مستحق وہ شخص ہے جس کو نبی نے قتل کیا یا اس نے نبی کو قتل کیا یا جاہل اور گمراہ امام۔ پھر ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ نبی کی سنت کا زندہ کرنا خود اس رسول کا زندہ کرنا ہے۔ فرمایا : من احیا سنتی فقدا حیانی ومن احیانی کان معی فی الجنۃ ۔ جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھے زندہ کیا اور جس نے مجھے زندہ کیا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے : یا بنی وذلک من سنتی ومن احب سنتی فقدا حبنی ومن احبنی کان معی فی الجنۃ۔ اے بیٹے ! یہ میری سنت ہے جس نے میری سنت سے محبت رکھی وہ مجھے محبوب رکھتا ہے اور مجھ سے دوستی رکھنے والا میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ بیہقی نے کتاب الزہد میں روایت کیا ہے کہ : من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائتہ شھید : جب امت میں فتنہ و فساد ہو اور ایک مسلمان میری سنت سے تمسک کرے یعنی مضبوطی کے ساتھ پکڑے تو اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ یہ تمام روایات پکار پکار کر اعلان کرتی ہیں کہ نبی کی سنت کو زندہ کرنا خود اس نبی کو زندہ کرنے کے برابر ہے۔ بات ہو رہی تھی بنی اسرائیل کے قتل انبیاء کی ، اس لئے ان روایات کا ذکر بھی کیا کہ نبی کے قتل کرنے کا مطلب اس کی دعوت کو جھٹلانا بھی ہے لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ نبی اسرائیل انبیاء کو فی الوقع قتل کردینے کے بھی مرتکب ہوئے جیسے یسیعا نبی کا قتل۔ یرمیاہ نبی کا قتل ، زکریا نبی کا قتل ، یحییٰ (علیہ السلام) نبی کا قتل اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا اقدام قتل۔ بنی اسرائیل کا اعتراف جرم : بنی اسرائیل نے اپنے اس جرم یعنی قتل انبیاء کو اپنی تاریخ میں خود بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے یہاں چند ارشادات کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 1: حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد جب بنی اسرائیل کی سلطنت تقسیم ہو کر دو ریاستوں یعنی یرو شلم کی دولت یہودیہ اور سامریہ کی دولت اسرائیل میں بٹ گئی تو ان میں باہم لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہودیہ کی ریاست نے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف دمشق کی آرامی سلطنت سے مدد مانگی اس پر خدا کے حکم سے حنانی نبی نے یہودیہ کے فرمانروا آسا کو سخت تنبیہ کی مگر آسانے اس تنبیہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور خدا کے پیغمبر کو جیل بھیج دیا۔ (2 تاریخ باب 17 آیت 7 تا 10) 2: حضرت الیاس (علیہ السلام) نے جب بعل کی پرستش پر یہودیوں کو ملامت کی اور توحید کی دعوت کا ازسر نو صور پھونکا تو سامریہ کے بادشاہ اخی اب نے اپنی مشرک بیوی کی خاطر ہاتھ دھو کر ان کی جان کے پیچھے پڑگیا۔ اس موقع پر حضرت الیاس نے جو دعا مانگی ہے اس کے الفاظ درج ذیل ہیں : ” بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا۔ تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں ، سو اب وہ میری جان لینے کے درپے ہیں۔ “ (سلاطین 1 : باب 19 ، آیت 1 تا 10) 3: ایک نبی حضرت میکایاہ کو اس اخی اب نے حق گوئی کے جرم میں جیل بھیج دیا اور حکم دیا کہ اس شخص کو مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا۔ (1 ۔ سلاطین باب 22۔ آیت 26 ، 27) 4: جب یہودیہ کی ریاست میں اعلانیہ بت پرستی اور بدکاری ہونے لگی اور زکریا نبی نے اس کے خلاف آوازبلند کی تو شاہ یہوداہ یو آس کے حکم سے انہیں عین ہیکل سلیمانی میں ” مقدس “ اور ” قربان گاہ “ کے درمیان سنگسار کردیا گیا۔ (2 تواریخ ، باب 24 ، آیت 21) 5: ایک نبی حضرت عاموس نے سامریہ کی اسرائیلی ریاست کو اس کی گمراہیوں اور بدکاریوں پر ٹوکا اور ان حرکات کے برے انجام سے خبردار کیا تو ان کو ملک بدر کردیا گیا۔ ( عاموس ، باب 7 ، آیت 10 تا 13) 6: حضرت یوحنا یعنی یحییٰ (علیہ السلام) نے جب ان کی بداخلاقیوں کے خلاف آواز اٹھائی تو ہیرو دیس کے دربار میں اس صالح ترین انسان کا سر قلم کرایا گیا۔ (مرقس ، باب 6 ، آیت 17 تا 29) 7: یرمیاہ نبی اپنی قوم کے زوال پر ماتم کرنے کے لئے اٹھے اور کو چہ کو چہ انہوں نے پکارنا شروع کیا تو ان پر پھٹکار کی بارش برسائی گئی ، پیٹے گئے ، قید کئے گئے۔ اور رسی سے باندھ کر ایک کیچڑ کے حوض میں لٹکا دیئے گئے اور وہ بھوک اور پیاس سے وہیں سوکھ سوکھ کر مرگئے ان پر الزم لگایا گیا کہ وہ قوم کے غدار ہیں اور بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں۔ (یرمیاہ باب 150 آیت 10) حقیقت کو کھو دینا بھی عصیان وعدوان کہلاتا ہے : 130: یہود کے عصیان وعدوان کا ذکر کر کے سمجھایا جا رہا ہے کہ عصیان وعدوان ہے کیا ؟ فرمایا اس کے عام معنی تو نافرمانی کے ہیں مگر اس کا مطلب اصلی یہ بیان کیا جارہا ہے کہ مذہب کے جس قدر احکام ہیں ان کی ایک صورت تو ظاہری ہوتی ہے جس کی پابندی ہر شخص کو کرنا ہی پڑتی ہے مگر ایک روح اور حقیقت بھی ہوتی ہے جو اس صورت کی پابندی سے پیدا کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہر مسلمان صاحب استطاعت عید الاضحی کے ایام میں قربانی کیا کرے پھر سورة حج میں اس کی حقیقت پر بھی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ : لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ 1ؕ(الحج 22 : 37) گوشت اور خون میں سے اللہ کے پاس کوئی چیز نہیں جاتی بلکہ اس کا مقصد اصلی تو جذبہ و ایثار کا پیدا کرنا ہے اور بس۔ حج سے فراغت کے بعد فرمایا کہ یہاں پر آکر لوگ دو قسم کے ہوجاتے ہیں ایک وہ جنہیں صرف دنیا اور اس کی جاہ و منزلت مطلوب تھی اور یہ لوگ ملک و ملت کے لئے بیکار ہوتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جن کی نظر دنیا اور آخرت دونوں پر ہوتی ہے اصل میں کام کرنے والے یہی لوگ ہیں۔ فرمایا : فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ 00200 وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ 00201 (البقرہ 2 : 301) اسلام کے جتنے ارکان شریعت میں بیان کئے گئے ہیں سب کا یہی حال ہے ایک ان کا ظاہری جسم و وجود ہے اور ایک کی حقیقت اصلیہ ، اور دونوں آپس میں لازم و ملزوم بھی ہیں جیسے جسم و جان۔ جس طرح جسم بغیر جان کے بیکار و مُردہ ہے بالکل اسی طرح عمل بغیراصلی روح و حقیقت کے بےجان و مردہ ہے۔ جس طرح روح جسم کے بغیر کار آمد نہیں بالکل اسی طرح روح عمل بھی جسم عمل کے بغیر کارآمد نہیں۔ شریعت کا مقصد یہ ہے کہ چند اخلاق فاضلہ قوم میں پیدا ہوں مگر ان کے لئے بعض اعمال کا پابند ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ حقیقت پیدا نہیں ہو سکتی۔ جب کسی قوم میں تنزل شروع ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ اعمال کی روح و حقیقت کھو بیٹھتی ہے اور صرف ظاہری شکل و صورت پر زور دیتی ہے۔ اس کو عدوان کہتے ہیں لیکن اس عدوان کا انتہائی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اعمال کو بھی غیر ضروری سمجھنے لگ جاتی ہے۔ اس لئے کچھ مدت کے بعد احکام واوامر کا ترک شروع ہوجاتا ہے اور لوگ شریعت کی پابندی کا خیال نہیں کرتے اس کا نام عصیان ہے۔ عصیان وعدوان کے امراض جب حد سے بڑھ جائیں اور اعمال مذہبی سے بعد اپنے کامل پر پہنچ جائے تو ان لوگوں کی قدر و قیمت جاتی رہتی ہے جن کے ذریعہ سے شریعت نوازش ہوئی تھی ان کے ساتھ تمسخر و استہزاء کیا جاتا ہے۔ ان کو حقیر و ذلیل خیال کرنے لگ جاتے ہیں اور اگر ذرا انہوں نے حق و صداقت کے لئے آواز بلند کی تو چونکہ وہ پہلے ہی سے ادنیٰ سمجھے جاتے ہیں ، ان کو قتل کیا جاتا ہے اور پھر آخری منزل اللہ کی آیتوں کا انکار کرنا ہے جس کے بعد ذلت و رسوائی ہے اور غضب الٰہی۔ اسرائیلیوں کے مسلسل تردد و سرکشی اور نافرمانی کے تذکروں سے تورات و انجیل دونوں کے صفحات آج بھی پر ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی اپنی کتب سے بھی ” مشتے از خروارے “ نقل کردیں۔ تحریر ہے کہ : ” انہوں نے خدا کے پیغمبروں کو ٹھٹھے میں اڑایا اور اس کی باتوں کو ناچیز جانا اور اس کے نبیوں سے بدسلوکی کی یہاں تک کہ خدا کا غضب ان پر ایسا بھڑکا کہ کوئی چارہ نہ رہا۔ “ (تواریخ 2 ، 36 : 17) ” تمہاری ہی تلوار پھاڑنے والے شیر ببر کی مانند تمہارے نبیوں کو کھا گئی۔ “ (یرمیاہ 2 : 30) ” اے اہل یعقوب اور اہل اسرائیل کے سب خاندانو ! خداوند کا کلام سنو ! خداوند یوم فرماتا ہے کہ تمہارے باپ دادوں نے مجھ میں کونسی ناانصافی پائی جو وہ مجھ سے دور بھاگے اور بطلان کے پیرو ہوئے اور آپ باطل ہوگئے۔ “ (یرمیاہ 2 : 4 ، 5) ” وہ نافرمان نکلے اور تجھ سے پھرگئے اور انہوں نے تیری شریعت کو اپنی پشت کے پیچھے پھینکا اور تیرے نبیوں کو جو نصیحت دیتے تھے کہ انہیں تیری طرف پھرا لائیں ، قتل کیا اور انہوں نے کاموں سے تجھے غصہ دلایا۔ “ (نخمیاہ 9 : 26) ” اے گردن کشو اور دل اور کان کے نامختونو !.... نبیوں میں سے کس کو تمہارے باپ دادوں نے نہیں ستایا ؟ “ (اعمال 7 : 51 ، 52) ” اے یرو شلم ! اے یرو شلم ! تو نبیوں کو قتل کرتی ہے اور جو تیرے پاس پہنچ گئے ہیں انہیں سنگسار کرتی ہے۔ “ (متی 23 : 29) ، لوقا (12 : 34 : 35) غرض توہین انبیاء اور پیغمبر کشی کا الزام یہود پر قرآن کریم ہی نے نہیں لگایا ان کا فرد جرم کا یہ عنوان تو ان کے اپنے نوشتوں کے اندر بھرا پڑا ہے قرآن کریم نے تو صرف ان بیانات کی تصدیق کی ہے۔ سورۃ البقرہ آیت 61 کا ماحصل : آیت زیر نظر میں یہودیوں کی چند خرابیاں ذکر ہوئی ہیں : 1۔ عدوان۔ 2۔ عصیان۔ 3۔ کفر بایات اللہ ۔ 4۔ قتل انبیاء وغیرہ۔ قارئین ” عروۃ “ اس آیت کو سرسری نظر سے دیکھ کر آگے نہ گزر جائیں بلکہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ ان میں کونسی خرابی ہے جو ان پر صادق نہیں آتی َ کیا عصیان وعدوان سے وہ اپنے آپ کو پاک سمجھتے ہیں اکثر افراد ارکان مذہبی کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ جو پابند ہیں روح و حقیقت سے بیخبر ہیں صرف لکیر کے پیچھے چل رہے ہیں کس طرح رسول اللہ ﷺ کی سنت کو مردہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے گویا دوسرے الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کے قتل کے درپے ہیں۔ پھر کفربایات اللہ تو اس کا لازمی اور قطعی نتیجہ ہے۔ جب نوبت یہاں تک آگئی تو یہودیوں کو ان حرکات کا جو صلہ ملا مسلمان بھی اس سے محروم نہیں رہے یعنی ذلت و مسکنت اور اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا کہ حکومتیں چھن گئیں غیروں نے ان پر قبضہ کرلیا بلکہ خود غیروں کو مدد دی کہ ہمارے بھائیوں کو فنا کرو اور ان کے ملکوں پر قبضہ کرلو اور جہاں کہیں قبضہ کر کے دوبارہ حکومت اس ملک کے رہنے والوں کو انہوں نے سپرد کی اس کا اندازہ بڑا ہی عجیب ہے کہ مغربی جمہوریت کی لعنت ان کے گلے میں لٹکا دی اور ان کو بارو کرایا کہ تمہارا امیر۔ امیر المؤمنین۔ خلیفہ وقت۔ خلیفۃ المسلمین ایک اور صرف ایک نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ ہر جماعت ، ہر گروہ ، ہر فکر کا ایک امیر ہونا ضروری ہے تاکہ ملک کا انتظام و انصرام جن ہاتھوں میں ہو وہ آزادی کے ساتھ کام کرسکیں اور عوام کو لڑا بھڑا کر اپنا الو ّ سیدھا کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی سوچ ایک ہوجائے۔ ان کی ضرورت ایک ہوجائے ۔ ان سب کو الگ الگ ملکوں کے باشندے بنا کر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے ان کو استعمال کیا جاسکے۔ مختصر یہ کے جہاں کہیں آزادی ہے جیسے ہمارے ملک پاکستان میں وہ صرف نام کی آزادی رہے کام ویسے ہی چلیں جیسے عیسائی بابا کا حکم ہو اور آزاد ہونے کے باوجود ہم محکوم و غلام ہی رہیں ۔ ذلت ورسوائی اب ہمارا مقدر ہوگیا اور غضب الٰہی میں ہم مبتلا ہوگئے ۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ 00
Top