Baseerat-e-Quran - Al-Ghaafir : 30
وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ مِّثْلَ یَوْمِ الْاَحْزَابِۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْٓ : وہ شخص جو اٰمَنَ : ایمان لے آیا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنِّىْٓ اَخَافُ : میں ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ مِّثْلَ : تم پر۔ مانند يَوْمِ الْاَحْزَابِ : (سابقہ) گروہوں کا دن
اور وہ شخص جو ایمان لے آیا تھا اس نے کہا اے میری قوم ! میں تمہارے اوپر تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہوں کے جیسے عذاب سے ڈرتا ہوں ( جو ان پر آیا تھا)
لغات القرآن آیت نمبر 30 تا 37 : داب (دستور ، قاعدہ ، قانون) التناد ( چیخ و پکار) عاصم (بچانے والا) ھاد (ہدایت دینے والا ، رہبر و رہنمائ) مازلتم ( تم ہمیشہ رہے) مرتاب ( شک کرنے والا) یطبع ( وہ مہر لگاتا ہے) جبار (بہت سختی کرنے والا) ابن ( بنائ) ( تعمیر کر دے) صرحا ( عمارت ، محل) اطلع ( میں جھانکوں گا) زین (خوبصورت بنا دیا گیا) صد ( اس نے روک دیا) کید ( تدبیر ، فریب) تباب (تباہی ، بربادی) تشریح : آیت نمبر 30 تا 37 :۔ اس سے پہلی آیات میں آپ نے پڑھ لیا ہے کہ آل فرعون میں سے ایک مرد مومن نے بھرے دربار میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تائید کرتے ہوئے آل فرعون کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے منع کیا تھا اور ان کو متعدد نصیحتیں کی تھیں ۔ اس مرد مومن نے مزید کہا کہ لوگو ! اگر تم موسیٰ (علیہ السلام) کو اسی طرح جھٹلاتے رہے اور ان کی مخالفت اور بد دشمنی پر اسی طرح اڑے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تمہیں وہ دن دیکھنا نہ پڑے جو تم سے پہلی قوموں قوم نوح (علیہ السلام) ، قوم عاد اور قوم ثمود اور انکے بعد آنے والی نافرمان قوموں نے دیکھا تھا ۔ اللہ نے ان لوگوں پر اپنی رحمتیں نازل کیں ۔ ہر طرح کی نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا لیکن وہ اپنی ضد ، ہٹ دھرمی ، سرکشی اور نا فرمانیوں پر اڑے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ قومیں مختلف عذابوں میں تباہ و برباد کردی گئیں ۔ اللہ تو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے وہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کرلیتے ہیں ۔ اس مرد مومن نے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ عذاب تمہارے اوپر بھی آگیا جو گزشتہ قوموں پر آیا تھا تو پھر تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچا نہ سکے گا کیونکہ جو خود ہی راستے سے بھٹک جائے اور ہدایت سے منہ پھیر لے تو ایسے آدمی کو راہ ہدایت نصیب نہیں ہوا کرتی ۔ اس مرد مومن نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ سچائی کا راستہ اختیار کرلیا جائے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قدر کی جائے کیونکہ اگر یہ وقت نکل گیا تو پھر بعد میں سوائے شرمندگی اور پچھتانے کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ۔ جس طرح لوگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زندگی میں تو بڑے اعتراض کرتے رہے لیکن ان کے جانے کے بعد قوم کو احساس ہوا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا وجود کس قدر رحمت اور برکت کا سبب تھا۔ ان کی قوم حضرت یوسف (علیہ السلام) کے وصال کے بعد اس قدر مایوس ہوگئی اور کہنے لگی کہ اب ان کے بعد کوئی رسول کیا آئے گا ۔ یعنی ان جیسا رسول تو اب آ ہی نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا جو حد سے بڑھ جانے والے اور جھوٹ اور شک کے سہارے زندہ رہتے ہیں ۔ جن کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ بغیر کسی دلیل کے اللہ کی آیات میں جھگڑے نکالتے ہیں ۔ اللہ ایسے جابر و ظالم لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے اور ایسے لوگ اللہ کے غصے اور غضب کا شکار ہو کر رہتے ہیں۔ جب فرعون نے دیکھا کہ مرد مومن کی باتوں سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں تو اس نے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ایک نہایت غیر سنجیدہ اور نا معقول بات کرتے ہوئے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ میرے لئے ایک ایسی اونچی بلڈنگ تعمیر کرا دے جہاں سے میں موسیٰ (علیہ السلام) کے رب کو جھانک کر دیکھ سکوں کیونکہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سب غلط اور جھوٹ ہے۔ تاریخی اور معتبر روایات سے یہ تو ثابت نہیں ہے کہ فرعون یا اس کے وزیر نے کوئی ایسی اونچی بلڈنگ بنوائی ہو ۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ فرعون نے اس طرح لوگوں کی توجہ ہٹانے اور بات کو مذاق میں اڑانے کی کوشش تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح اللہ نے فرعون کے غیر سنجیدہ اور بد ترین اعمال کو اس کو نظروں میں خوبصورت بنا دیا تھا جس سے اس کی عقل ماری گئی تھی ۔ اور اس طرح فرعون کی ہر سازش اور ہر تدبیر اس کو تباہی کے کنارے تک پہنچانے کا سبب بنتی چلی گئی ۔ اور آخرکار وہ اس کے ساتھی اپنی گمراہیوں کے سمندر میں غرق ہو کر تباہ و برباد ہوگئے۔
Top