Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 3
وَ هُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْهٰرًا١ؕ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
وَهُوَ الَّذِيْ : اور وہی وہ۔ جس مَدَّ الْاَرْضَ : پھیلایا زمین کو وَجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں رَوَاسِيَ : پہاڑ (جمع) وَاَنْهٰرًا : اور نہریں وَمِنْ كُلِّ : اور ہر ایک سے الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) جَعَلَ : بنایا فِيْهَا : اس میں زَوْجَيْنِ : جوڑے اثْنَيْنِ : دو دوقسم يُغْشِي : وہ ڈھانپتا ہے الَّيْلَ : رات النَّهَارَ : دن اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لئے جو يَّتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرتے ہیں
اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا پیدا کئے۔ اور ہر طرح کے میووں کی دو دو قسمیں بنائیں۔ وہی رات کو دن لباس پہناتا ہے غور کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔
آیت نمبر 3 قولہ تعالیٰ : وھو الذی مد الارض جب آسمان کی نشانیوں کو بیان فرما دیا تو اب زمین کی نشانیوں کو بیان فرمایا یعنی زمین کو طول و عرض میں پھیلا دیا۔ وجعل فیھا رواسی یعنی ایسے پہاڑ جو بہت زیادہ ثابت ہیں، اس کا واحد واسیۃ ہے کیونکہ زمین ان کے ذریعے ثابت رہتی ہے اور الا رسائ کا معنی الثبوت ہے، عشرہ نے کہا ہے : فصبرت عارفۃ لذالک حرۃ ترسو اذا نفس الجبان تطلع جمیل نے کہا : احبھا والذی ارسی قواعدہ حبا إذا ظھرت ایاتہ بطنا ان دونوں اشعار میں ترسو اور ارسی کا یہی معنی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور عطا نے کہا : زمین پر قائم ہونے والا پہلا پہاڑ ابو قبیس ہے۔ مسئلہ : ان آیات میں ان لوگوں کی تردید ہے جن کا خیال یہ ہے کہ زمین ایک کرہ ہے، اسی طرح ان کی تردید ہے جن کا خیال یہ ہے کہ زمین کے دروازے اس پر جھکتے ہیں۔ ابن راوندی کا خیال ہے کہ زمین کے نیچے بہت زیادہ بلند ہونے والے اجسام ہیں جس طرح کہ اوپر اٹھنے والی ہوا ہوتی ہے۔ اور یہ ڈھلوان ہے تو قوت اور مدار میں نیچے آنے والی زمین ٹھہر گئی، جبکہ مسلمان اور اہل کتاب کا عقیدہ زمین کے وقوف، اس کے ساکن ہونے اور اس کے پھیلنے کا ہے اور اس کی حرکت عام طور پر زلزلہ کے ذریعے ہوتی ہے جو (بعض اوقات) اس میں بپا ہوتا ہے۔ وانھرا یعنی زمین پر جاری پانی، اس میں مخلوق کا فائدہ اور منافع ہے۔ ومن کل المثرات جعل فیھا زوجین اثنین۔ زوجین اثنین، بمعنی صنفین ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : الزوج واحد ہے اور ہوتے دو ہیں۔ فراء نے کہا : الزوجین سے یہاں مراد مذکر اور مؤنث ہے لیکن یہ نص کے خلاف ہے۔ ایک قول ہے : زوجین کا معنی نوعین ہے جس طرح کہ میٹھا اور کڑوا، خشک اور تر، سفید اور سیاہ، چھوٹا اور بڑا۔ ان فی ذلک لایت یعنی دلالت اور علامات لقوم یتفکرون اس قوم کے لیے جو غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔
Top