بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
ان ہوائوں کی قسم جو گرداڑانے والی ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 23 ذاریات (ذاریۃ) اڑ کر بکھیرنے والیاں الحاملات اٹھانے والیاں ۔ وقر بوجھ۔ جاریات چلنے والیاں۔ یسر آسانی، سہولت۔ المقسمات تقسیم کرنے والیاں۔ توعدون تم جو وعدہ کئے گئے ہو الحبک (حبیکۃ) راستے۔ یوفک پھیرا جاتا ہے افک پھیرا گیا ہے۔ الخراصون انکل کے تیرچ لانے والے غمرۃ غفلت ساھون بھونے والے، غفلت کرنے والے ایان کب۔ یفتون الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔ تستعجلون تم جلدی مچاتے ہو عیون (عین) چشمے۔ یعجعون تھوڑا سا سونا۔ السائل سوال کرنے والا، مانگنے والا۔ المحروم غریب، مفلس، محروم رہنے والا۔ تنطقون تم بولتے ہو۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 23 اصل میں وہ لوگ جو آخرت کا انکار کرتے تھے انسان کے مر جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور آخرت میں حساب کتاب کو عقل سے دور کی بات قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں آخرت وغیرہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے منکرین کو یقین دلانے کے لئے چار چیزوں کی قسم کھائی ہے اور بتایا ہے کہ ان پر غور کرلو تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کائنات کا ایک ایک زرہ اور اس میں انقلابات اس کے گواہ ہیں کہ ایک دن اس نظام کو توڑ دیا جائے گا اور نئی زمین اور آسمان وجود میں آجائیں گی وہی آخرت اور حشر کا دن ہے۔ فرمایا تم نہیں دیکھتے کہ جب زمین گرمی اور خشکی سے گرد و غبار بن جاتی ہے ہر طرف دھول اڑانے والی ہوائیں چلتی ہیں تو اس گرمی سے بادل بنتے ہیں اور ہوائیں ان بھاری بادلوں کو اٹھا کر ایک خاص بلندی تک لے جاتی ہیں اور پھر جس جگہ اللہ کا حکم ہوتا ہے یہ بادل برس کر اس خشک زمین کو تر کردیتے ہیں اور پھر اس میں ایک خاص رونق ابھر کر سامنے آتی ہے۔ پانی پر کشتیاں چلتی ہیں جو اپنی نرم رفتار سے چل کر لوگوں تک رزق پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور پھر اللہ کے حکم سے اس کا رزق اس کی مخلوق میں تقسیم ہوتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ جس طرح تم دیکھتے ہو کہ ایک خشک بنجر، سوکھی ہوئی مٹی پر پانی پڑتے ہی ایک دم نکھار آجاتا ہے اور مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح جب اللہ کے حکم سے صور پھونکا جائے گا تو ساری مخلوق مر جائیگی اور جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو اولین و آخری کے تمام مردے اپنی اپنی جگہوں سے نکل کر میدان حشر کی طرف دوڑنا شروع کردیں گے۔ فرمایا اس کے علاوہ زمین و آسمان ہی نہیں بلکہ خود انسان کے اپنے وجود کے اندر سینکڑوں نشانیاں موجود ہیں۔ غور کرنے والے اس حقیقت تک پہنچ ہی جاتے ہیں کہ اس پوری کائنات کا مالک صرف اللہ ہے وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے نبی ! آپ جس قیامت کا ذکر کر رہے ہیں وہ کب آئے گی ؟ فرمایا کہ قیامت تو آ کر رہے گی اس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن یہ دن کفار و مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کیلئے بہت سخت دن ہوگا کیونکہ اس دن ان کفار کو آگ پرتپایا جائے گا اور وہ لوگ جنہوں نے زندگی بھر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری میں گذاری ہوگی تقویٰ و پرہیز گاری جن کی زندگی کا سرمایہ ہوگا وہ جنت کی راحتوں میں ہر طرح کی نعمتیں حاصل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا خلاصہ یہ ہے : ان ہواؤں کی قسم جو گرداڑنے والی ہیں پھر یہی ہوائیں ان بدلیوں کو اپنے دوش پر لے کر چلتی ہیں جو پانی سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کشتیوں کی قسم جو انسانی رزق اور اسباب کو لے کر ایک خاص وقار، انداز اور نرمی سے چلتی ہیں۔ پھر ان فرشتو کی قسم جو (اللہ کے رزق کو) تقسیم کرنے والے ہیں کہ تم سے جس قیامت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بالکل سچ ہے اور ایک ایسا انصاف کا دن قائم ہوگا جس میں ہر شخص کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا جائے گا۔ کسی پر کسی قسم کا ظلم اور زیادتی نہ کی جائے گی۔ فرمایا کہ اس سراستے والے آسمان کی قسم یعنی جس میں فرشتے اترتے اور چڑھتے ہیں کہ تم لوگ اس قیامت کے بارے میں کس قدر مختلف باتیں بنا رہے ہو یعنی کوئی اس کو مانتا ہے اور کوئی نہیں مانتا۔ حالانکہ اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیا جائے تو وہ اس سچائی کی گہرائی تک پہنچ جائے گا۔ فرمایا کہ اس حقیقت کو وہی تسلیم کریں گے جن کے دل میں ال لہ و رسول کی اطاعت کا جذبہ ہوگا لیکن وہ لوگ جو کسی سچائی کی بات کو دیکھنے اور سننے کے باوجود اس کا یقین نہیں کرتے وہ اپنے گمان پر عمل کر کے اپنے آپ کو سعادت کے ہر راستے سے محروم کر کے اپنے اوپر لعنتیں مسلط کرتے جا رہے ہیں۔ ان کی غفلت انہیں کہیں کا نہ چھوڑے گی۔ کفار کہتے ہیں کہ آخر و قیامت کب آئے گی ؟ اللہ نے فرمایا کہ جب وہ دن آئے گا تو اس دن ان کفار و مشرکین کو جہنم کی آگ پر تپایا جائیگا اور کہا جائے گا کہ یہی وہ عذاب ہے جس سے تمہیں ڈرایا جاتا تھا مگر تم نے ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا ۔ اب تم اس عذاب کا مزہ چکھو اور جس عذاب کی جلدی کرتے تھے اس کی سزا بھگتو۔ ان لوگوں کے برخلاف وہ لوگ جنہوں نے نیکی اور پرہیز گاری کے ساتھ زندگی گزاری ہوگی ان کو جنت کے باغوں اور چشموں کی نعمت عطا کی جائے گی۔ یہ سعادت ان لوگوں کے حصے میں آئے گی جو پرہیز گاری اور احتیاط کی زندگی گذارتے تھے ۔ راتوں کو بہت کم سوتے تھے اور رات کے آخری حصے میں اللہ سے استغفار یعنی اپنے گناہوں کی معافی مانگا کرتے تھے ۔ جن کا مال و دولت صرف ان ہی لوگوں کیلئے نہیں تھا جو ان سے سوال کرتے تھے بلکہ ہر اس ضرورت مند شخص کے لئے وقف تھا جو شرم کے مارے سوال نہیں کرتا تھا۔ فرمایا کہ انسان بات کو سمجھنا چاہے تو کائنات میں بکھری ہوئی نشانیوں اور خود اس کی اپنی ذات میں جو نشانیاں موجود ہیں ان پر غور کر کے حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ نے تمہارے لئے آسمان میں تمہارا رزق رکھا ہے۔ فرمایا کہ زمین و آسمان کے رب کی قسم یہ بات بالکل سچ ہے اور جس طرح تم بول رہے ہو اسی طرح یہ بات برحق ہے۔
Top