Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ : پکڑیں (کریں) الْعَفْوَ : درگزر وَاْمُرْ : اور حکم دیں بِالْعُرْفِ : بھلائی کا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لیں عَنِ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
(اے نبی ! ) آپ درگزر کیجئے بھلائی کا حکم دیتے رہیے اور جاہلوں سے کنارہ کر لیجئے
لغات القرآن۔ خذ۔ اختیار کر۔ العفو۔ درگزر کرنا۔ وامر بالعرف۔ اور نیک کا حکم کر۔ اعرض۔ منہ پھیر لے۔ پرواہ نہ کر۔ ینزغن۔ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔ نزغ۔ وسوسہ ۔ کوئی خیال۔ یمدون۔ وہ کھینچتے ہیں۔ الغی۔ گمراہی۔ لا یقصرون۔ وہ کمی نہیں کرتے ہیں۔ تشریح : اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اخلاق کریمانہ کے مقا پر فائز فرمایا ہے۔ آپ کی شان یہ ہے کہ خلق عظیم آپ کی سیرت کا اعلیٰ ترین پہلو ہے، ۔ آپ نے دشمنوں کے ساتھ بھی کرم کے وہ اندازہ اختیار فرمائے ہیں جس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ آپ ساری کائنات کے لئے رحمت ہی رحمت ہیں لیکن زندگی میں بعض ایسے مواقع بھی آجایا کرتے ہیں جہاں انسانی جذباتی طور پر ہل کر رہ جاتا ہے۔ غزوہ احد ایک ایسا معرکہ تھا جس میں نبی کریم ﷺ کے چچا سید الشھداء حضرت حمزہ ؓ کو نہای بےدردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ ان کے جسم کے تمام اعضاء کو کاٹ ڈالا گیا۔ کلیجہ چبایا گیا جب نبی کریم ﷺ نے اپنے پیارے چچا کی لاش کو دیکھا تو آپ اپنے انسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے کفار کی اس حرکت پر آپ کی طبیعت میں شدید غسہ کا پیدا ہونا ایک لازمی چیز ہے آپ کی زبان مبارک سے شدت غم کی وجہ سے یہ نکل گیا کہ جن لوگوں نے حضرت حمزہ ؓ کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے میں ان کے ستر آدمیوں کے خلاف یہی معاملہ کروں گا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ جس میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے ہمارے پیارے نبی ﷺ آپ کے خلق عظیم اور حلم و متانت کے یہ بات شایان شان نہیں ہے کہ آپ کسی سے بدلہ لیں بلکہ آپ درگزر کریں ۔ نیک کاموں کی تعلیم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ فرما لیں شیطان کا کام تو وسوسے ڈالنا ہے لیکن اگر کبھی دل میں اس طرح کا کوئی خیال پیدا ہو تو آپ اللہ کی پناہ میں آجائیے کیوں خۃ جو تقویٰ والے ہیں جب شیطان سے ان کو کوئی خطرہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اللہ کی یاد میں لگ جاتے ہیں تو یکا یک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں لیکن جو لوگ شیطان کی پیروی کرتے ہیں وہ شیطان ان لوگوں کو گمراہی کی طرف اس طرح کھینچے چلا جاتا ہے کہ وہ اس میں کمی نہیں کرتے ۔ امام تفسیر حضرت ابن جریر (رح) نے اس سلسلہ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپو نے جبریل امین سے ان آیات کے متعلق پوچھا حضرت جبرئیل نے اللہ تعالیٰ سے پوچھ کر یہ جواب دیا کہ اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ جو شخص آپ پر ظلم و زیادتی کرے آپ اس کو معاف کریں جو آپ سے ہاتھ کھنیچ لے اس کو سب کچھ دیں اور جو آپ سے تعلق قطع کرلے اس سے پھر بھی ملیں۔ قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں ان آیات میں امت کے لئے جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) ۔ بیشک شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی گئی ہے تو اس سے اس کا پورا پورا بدلہ لیا جاسکتا ہے لیکن کسی کی زیادتی کے باوجود اس کو معاف کردینا اور انتقام کی قدرت و طاقت رکھنے کے باوجود اس سے انتقام اور بدلہ نہ لینا اخلاق کریمانہ ہے۔ اس آیت میں نبی کریم ﷺ آپ کے امتیوں کو اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔ (2) معاف کردینے کے بعد لوگوں کی خیر خواہی بھلائی اور نیکی پر مائل کرنے کے جذبے میں کوئی کمی نہ آئے بلکہ پہلے کی طرح دوسروں کی بھلائی کیلئے کا کرتے چلے جانا یہ بھی بہت بڑے ظرف اور عزم و ہمت کی بات ہے۔ (3) جاہلوں اور نادانوں کا کام تو یہی ہے کہ وہ اپنی جہالت اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہی رہتے ہیں لیکن اہل ایمان کی شان یہ ہے کہ وہ جاہلوں کے پیچھے پڑ کر اپنی منزل کھوٹی نہیں کرتے بلکہ ان کو نظر انداز کرکے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ (4) شیطان کا کام انسانوں سے دشمنی نکالنا۔ ان کو بہکانا اور ان کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسے ڈالنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب بھی کوئی جذباتی موقع آئے اور شیطان کسی طرح کے وسوسے ڈالنے کی کوشش کرے تو تم اللہ تعالیٰ کی پناہ تلاش کرلیا کرو تاکہ شیطان کی فریب کاری تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ (5) فرمایا کہ جو لوگ تقویٰ کی زندگی اختیار کرتے ہیں جب بھی انہیں شیطان کی طرف سے کسی وسوسے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اپنے رب کی عبادت و بندگی اختیار کرلیتے ہیں اگر غفلت کا پردہ پڑ بھی جائے تو وہ اللہ کے ذکر سے اس طرح اس عمل سے ہٹ جاتے ہیں کہ پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے اور وہ شیطان کے دھوکے اور فریب سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ (6) اس کے برخلاف جو لوگ شیطان کے جال میں پھنس جاتے ہیں وہ ان کو فریب دے کر بدعملی اور گمراہی میں اس طرح کھینچا چلا جاتا ہے کہ پھر اس کا اس سے بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو مذکورہ ا آیات سے ثابت ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان اخلاق کریمانہ کا پیکر بن جاتا ہے۔ اور ان کے برخلاف چلنے سے انسان شیطان کے وسوسوں فریب اور دھوکے کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان آیات میں جو الفاظ ارشاد فرمائے گئے ہیں اگر دیکھا جائے تو اس میں نبی کریم ﷺ کو اور آپ کے ماننے والے صحابہ کرا م ؓ اور پوری امت کو بہت جامع ہدایات دی گئی ہیں۔ فرمایا گیا (1) خذ العفو (2) وامر بالعرف (3) اعرض عن الجاھلین (4) استعذ باللہ (5) تذکروا۔ (1) خذ العفو : در گزر کر دیجئے، معاف کرنے کو اختیار کیجئے سرسری برتائو کو قبول کرلیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ اپنے دشمنوں، مخالفوں اور زیادتی کرنے والوں سے درگزر کیا ہے آپ نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھے اس بات کا حکم دیا ہے کہ غصہ اور خوشی دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں، جو مجھ سے کٹتا ہے میں اس سے جڑوں۔ جو مجے میرے حق سے محروم کردے میں اسے اس کا حق دوں۔ جو شخص میرے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کرتا ہے اس کو معاف کردوں۔ آپ جب صحابہ کرام ؓ کو تبلیغ اسلام یا جہاد کے لئے بھتیجے تو اس کی نصیحت فرماتے کہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ان کو سختی اور مشکلات میں مت ڈالنا، ان کو خوشخبریاں دینا محض سزائیں ہی نہ دینا۔ یہ آپ کے ارشادات ہیں لکن فتح مکہ کے دن آپ نے جس طرح اپنے خون کے پیاسوں کو معاف کردی اور ان کے ظلم و ستم سے درگزر فرمایا وہ تاریخ انسانی کا عظیم واقعہ ہے جس کی مثال پوری تاریخ انسانیت میں ملنا مشکل ہے۔ دشمنوں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرنا اور اس کی باتیں کرنا بہت آسان ہے لکنا جب وہ لوگ سامنے ہوں جنہوں نے ایسے ایسے ظلم کئے ہوں جو ناقابل بیان ہوں طاقت و قوت ہونے کے باوجود بھی ان کو معاف کردیا جائے اسی کو اخلاق کریمانہ کہتے ہیں۔ نبی مکرم ﷺ اسی اخلاق کریمانہ کے پیکر ہیں۔ آپ نے ساری دنیا کو دشمنوں سے بہترین معاملہ کرنے کو عملاً کر دکھایا جو ایک بہترین مثال ہے۔ (2) وامرا بالمعرف : نیک اور بہتر باتوں کی تعلیم دیجئے۔ عرف کے معنی نیکی بھلائی اور خیر خواہی کے ہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ لوگوں کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے جو حقیقی نیکی ہو۔ نیکیوں اور بھلائی کی باتوں کو پھیلانا اور ان کی تعلیم دینا اس امت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم میں امت محمدیہ ﷺ کو بہترین امت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تامرون باالمعروف و تنھون عن المنکر تم نیکیوں کی تعلیم دیتے ہو اور تمام برائیوں سے روکتے ہو۔ گویا ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی اور دوسروں کو بھی نیک اور بھلے کاموں پر آمادہ کرتا رہے۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ نے اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے بھی بہترین نمونے چھوڑے ہیں جن پر ساری انسانیت ناز کرسکتی ہے نبی کریم ﷺ کے جاں نثاروں نے ہمیشہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے وہ کام کئے ہیں جو بےمثال ہیں ۔ اور آج کائنات میں جو بھی روشنی نظر آتی ہے وہ ان ہی کا فیض نظر ہے۔ (3) اعرض عن الجاھلین : جاہلوں سے کنارہ کرلیجئے۔ جاہل صرف اسی کو نہیں کہتے کہ جس نے تعلیم حاصل نہ کی ہو بلکہ سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو کسی کی عزت و عظمت سے ناواقف ہو کر ایسے جاہلانہ کام کر گزرے جس سے دوسروں کی دل آزادی، دل شکنی اور محرومی پیدا ہوجائے۔ فرمایا گیا کہ اے نبی ﷺ یہ نالائق، جاہل اور احمق لوگ آپ کی شان اور عظمت سے ناواقف ہیں۔ اگر ان کو آپ کی شان اور عظمت معلوم ہوجائے تو کبھی ایسی حرکتیں نہ کریں۔ آپ ایسے لوگوں کو نظر انداز کیجئے۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ اللہ خود ان سے نبٹ لے گا۔ آپ اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہیے اور انسانیت کی فلاح و بہبود اور نیکی کے ہر کام کو پورے جذبے سے جاری رکھئے۔ (4) استعذ باللہ : اللہ کی پناہ طلب کرلیجئے۔ اس کی حفاظت میں آجائیے۔ اصل میں انبیاء کرام (علیہ السلام) معصوم ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت اللہ کی طرف سے کی جاتی ہے۔ شیطان وسوسے ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ شیطان کی مجال نہیں ہے کہ وہ انبیاء کرام (علیہم السلام) پر اپنا دائو چلا سکے۔ شیطان کی یہ تو ہمت نہیں ہے کہ وہ انبیاء کرام (علیہ السلام) سے کوئی گناہ کرا سکے۔ یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کبھی بشریت کے تقاضے سے کوئی ایسا خیال آجائے جو بظاہر خطا ہو (حالانکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرف کسی خطا کی نسبت بھی خطا ہے) تو اللہ کی پناہ میں آجانے سے وہ بات دور ہوجاتی ہے فرمایا گیا کہ اس وقت اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے۔ جب تک کوئی بات خیال کی حد تک ہو اور عمل میں نہ ڈھل جائے تو وہ گناہ نہیں ہوتی۔ جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ الصلوۃ والسلام) سوچنے کی حدت تک یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ لوگ چاند، سورج، ستاروں کو اپنے معبود کہتے ہیں ان میں سے میرا رب کونسا ہوسکتا ہے ؟ جب وہ چاند، سورج، ستاروں کو ایک لگے بندھے نظام کے تحت دیکھتے ہیں کہ وہ وقت پر نکل رہے ہیں اور ڈوب رہے ہیں تو وہ سمجھ گئے کہ یہ تو کسی اور کے تابع ہیں جو ان کو اپنی رفتار سے چلا رہا ہے حضرت ابراہیم خلیل اللہ چلا اٹھے کہ میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا اور میری قوم جن مشرکانہ باتوں میں مبتلا ہے میں ان میں سے کسی کے ساتھ شرک میں نہ شریک رہا ہوں اور نہ ہوں گا۔ اس واقعہ کو اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ سوچ کی بھی کچھ منزلیں ہوتی ہیں جب تک وہ عمل میں نہ ڈھل جائیں یا ان پر عمل نہ کیا جائے اس وقت تک ان پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) ہر خطا اور گناہ سے معصوم ہوتے ہیں لیکن اگر وہ کبھی کوئی ایسا خیال آجائے جو بظاہر گناہ ہے تو شیطان کے مقابلے میں اللہ کی پناہ مانگ لینے سے اللہ کی مدد پہنچ جاتی ہے۔ (5) تذکروا : آخری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر ایسی بڑی نعمت ہے کہ جب اللہ کو یاد کیا جائے گا تو شیطان کے کسی وسوسے کا اس پر اثر نہیں پڑے گا لیکن وہ لوگ جو شیطان کی پیروی کرنے والے ہیں شیان کا ان پر اتنا گہرا ثر پڑتا ہے کہ وہ ان کو گمراہیوں کی آخری حدوں تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ اللہ کا ذکر کرنے والے کبھی بھی شیطان کے وسوسوں اور فریب کے سامنے بےبس نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطانی وسوسوں اور فریب سے محفوظ فرمائے۔ ” آمین “۔
Top