Bayan-ul-Quran - Al-Baqara : 111
وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى١ؕ تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ١ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَنْ يَدْخُلَ : ہرگز داخل نہ ہوگا الْجَنَّةَ : جنت اِلَّا : سوائے مَنْ کَانَ : جو ہو هُوْدًا : یہودی اَوْ نَصَارٰى : یا نصرانی تِلْکَ ۔ اَمَانِيُّهُمْ : یہ۔ ان کی جھوٹی آرزوئیں قُلْ : کہہ دیں هَاتُوْا : تم لاؤ بُرْهَانَكُمْ : اپنی دلیل اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور یہ کہتے ہیں ہرگز داخل نہ ہوگا جنت میں مگر وہی جو یہودی ہو یا نصرانی ہو یہ ان کی تمنائیں ہیں ان سے کہو اپنی دلیل پیش کرو اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو
آیت 111 وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ الاَّ مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی ط جب یہ نئی امت مسلمہ تشکیل پا رہی تھی تو یہودی اور نصرانی ‘ جو ایک دوسرے کے دشمن تھے ‘ مسلمانوں کے مقابلے میں جمع ہوگئے۔ انہوں نے مل کر یہ کہنا شروع کیا کہ جنت میں کوئی ہرگز نہیں داخل ہوگا سوائے اس کے جو یا تو یہودی ہو یا نصرانی ہو۔ اس طرح کی مذہبی جتھے بندیاں ہمارے ہاں بھی بن جاتی ہیں۔ مثلاً اہل حدیث کے مقابلے میں بریلوی اور دیوبندی جمع ہوجائیں گے ‘ اگرچہ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیر اپنی جگہ ہے۔ جب ایک مشترکہ دشمن نظرآتا ہے تو پھر وہ لوگ جن کے اپنے اندر بڑے اختلافات ہوتے ہیں وہ بھی ایک متحدہّ محاذ بنا لیتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے اس مشترکہ بیان کے جواب میں فرمایا : تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ ط یہ ان کی خواہشات ہیں ‘ من گھڑت خیالات ہیں ‘ خوش نما آرزوئیں wishful thinkings ہیں۔ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ کسی آسمانی کتاب سے دلیل لاؤ۔ کہیں تورات میں لکھا ہو یا انجیل میں لکھا ہو تو ہمیں دکھا دو ! اب یہاں پر پھر ایک عالمگیر صداقت universal truth بیان ہو رہی ہے :
Top