Bayan-ul-Quran - At-Tawba : 33
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ۙ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰي : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غلبہ دے عَلَي : پر الدِّيْنِ : دین كُلِّهٖ : تمام۔ ہر وَلَوْ : خواہ كَرِهَ : پسند نہ کریں الْمُشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع)
وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول ﷺ کو الہدیٰ اور دین حق دے کرتا کہ غالب کردے اسے کل کے کل دین (نظام زندگی) پر خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے
آیت 33 ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖلا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ یہ آیت بہت واضح انداز میں محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی امتیازی یا تکمیلی شان کا مظہر ہے۔ جیسے کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ حضور ﷺ کی رسالت کا بنیادی مقصد تو دوسرے انبیاء ورسل کی طرح تبشیر ‘ انذار ‘ تذکیر ‘ دعوت اور تبلیغ ہے ‘ جس کا تذکرہ سورة النساء آیت 165 میں بایں الفاظ موجود ہے : رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ ط لیکن اس کے علاوہ حضور ﷺ کی بعثت کا ایک امتیازی اور خصوصی مقصد بھی ہے اور وہ ہے تکمیل رسالت ‘ یعنی دین کو بالفعل قائم اور غالب کرنا۔ اِن دو آیات میں آپ ﷺ کی رسالت کی اسی تکمیلی شان کا ذکر ہے۔ آیات کا یہ جوڑا بالکل اسی ترتیب سے سورة الصف آیت 8 اور 9 میں بھی آیا ہے۔ ان میں سے پہلی آیت سورة الصف میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ آئی ہے : یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِءُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ جبکہ دوسری آیت جوں کی توں ہے ‘ اس میں اور سورة التوبہ کی اس آیت میں بالکل کوئی فرق نہیں ہے۔ میں نے اس آیت پر چو بیس صفحات پر مشتمل ایک مقالہ لکھا تھا جو نبی اکرم ﷺ کا مقصد بعثت کے عنوان سے شائع ہوتا ہے۔ اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت کے خصوصی یا امتیازی مقصد کی کلی انداز میں تکمیل یعنی دنیا میں دین کو قائم اور غالب کرنے کی جدوجہد ہم سب پر حضور ﷺ کے امتی ہونے کی حیثیت سے فرض ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگوں نے اس فرض سے جان چھڑانے کے لیے بھی دلائل دیے ہیں کہ دین کو ہم انسانوں نے نہیں بلکہ اللہ نے غالب کرنا ہے ‘ لیکن اس کتاب کے مطالعے سے آپ پر واضح ہوگا کہ اس فرض سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
Top