Bayan-ul-Quran - Al-Muminoon : 100
لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّا١ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا١ؕ وَ مِنْ وَّرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
لَعَلِّيْٓ : شاید میں اَعْمَلُ : کام کرلوں صَالِحًا : کوئی اچھا کام فِيْمَا : اس میں تَرَكْتُ : میں چھوڑ آیا ہوں كَلَّا : ہرگز نہیں اِنَّهَا : یہ تو كَلِمَةٌ : ایک بات هُوَ : وہ قَآئِلُهَا : کہہ رہا ہے وَ : اور مِنْ وَّرَآئِهِمْ : ان کے آگے بَرْزَخٌ : ایک برزخ اِلٰى يَوْمِ : اس دن تک يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں۔ ہرگز نہیں، یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے اور ان کے پیچھے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے، ایک پردہ ہے۔
لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ : تاکہ میں جو کچھ مال و متاع چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں، یا اس دنیا میں جا کر کوئی نیک عمل کرلوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے : ”قتادہ نے آیت : (حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ) کے متعلق کہا کہ علاء بن زیاد فرمایا کرتے تھے کہ آدمی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اس مرنے والے کی جگہ رکھ کر سوچے کہ گویا اس کی موت آپہنچی تھی اور اس نے رب تعالیٰ سے مہلت مانگی تو اسے مل گئی، سو وہ اس مہلت میں جس قدر ہو سکے اللہ تعالیٰ کی بندگی کرلے۔ اور قتادہ نے فرمایا، اللہ کی قسم ! نہ وہ گھر والوں کی طرف جانے کی تمنا کرے گا، نہ اولاد کی طرف، بلکہ یہی تمنا کرے گا کہ واپس جا کر اللہ کی اطاعت کرلے۔ سو کوتاہی کرنے والے کافر کی آرزو دیکھو اور ملی ہوئی مہلت سے فائدہ اٹھا کر اس پر عمل کرلو۔“ كَلَّا : اس کے دو معنی ہیں اور دونوں مراد ہیں، ایک یہ کہ ہرگز ایسا نہ ہوگا کہ تم دنیا میں واپس جاؤ اور دوسرا یہ کہ تمہارا کہنا کہ میں واپس جا کر نیک عمل کروں گا، ہرگز درست نہیں۔ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا : یعنی یہ صرف ایک بات ہوگی جو وہ کہے گا، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا، بلکہ وہ صاف جھوٹ کہہ رہا ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ) [ الأنعام : 28 ] ”اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔“ دوسرا مطلب یہ کہ یہ صرف اس کے منہ کی بات ہوگی جو وہ بار بار کہے گا، مگر اسے اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسی بات ہے جو ہر کافر مرتے وقت ضرور ہی کہنے والا ہے۔ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ : ”وَرَاءٌ“ کا معنی آگے بھی ہے اور پیچھے بھی، یہاں دونوں معنی مراد ہیں کہ آگے ایک اور عالم برزخ آ رہا ہے، جسے قبر کی زندگی بھی کہا جاتا ہے، جہاں پہنچ کر دنیا والوں سے پردہ ہوجاتا ہے اور آخرت بھی سامنے نہیں آتی۔ ہاں کافر کے لیے آخرت کے عذاب کا تھوڑا سا نمونہ سامنے آتا ہے، جس کا مزہ قیامت تک چکھتا رہے گا۔ اسی طرح اہل ایمان کے لیے راحت و نعمت میسر ہوتی ہے۔ دونوں کا احادیث میں ذکر ہے اور آیات میں بھی۔ دیکھیے سورة مؤمن (45، 46
Top