Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 108
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِیْنَ
تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ اللّٰهِ : اللہ کی آیات نَتْلُوْھَا : ہم پڑھتے ہیں وہ عَلَيْكَ : آپ پر بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَمَا اللّٰهُ : اور نہیں اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ظُلْمًا : کوئی ظلم لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہان والوں کے لیے
یہ خدا کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو صحت کے ساتھ پڑھ کر سناتے ہیں اور خدا اہل عالم پر ظلم نہیں کرنا چاہتا
آیت نمبر : 108 تا 109۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” تلک ایت اللہ “۔ یہ مبتدا اور خبر ہے اور مراد قرآن کریم ہے۔ (آیت) ” نتلوھا علیک “۔ یعنی آپ پر جبریل امین کو نازل کرتے ہیں سو وہ آپ پر آیات پڑھتا ہے، (آیت) ” بالحق “۔ یعنی صدق وسچائی کے ساتھ، اور زجاج نے کہا ہے : (آیت) ” تلک ایت اللہ “ یہ آیت جو ذکر کی گئی ہیں اللہ تعالیٰ کی حجتیں اور اس کے دلائل ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ (آیت) ” تلک “۔ بمعنی ھذہ ہے۔ لیکن جب یہ گزر گئیں تو اس طرح ہوگئیں گویا یہ دور اور بعید ہیں۔ لہذا (آیت) ” تلک “ ذکر کیا گیا ہے، اور یہ بھی جائز ہے کہ (آیت) ” ایت اللہ، تلک سے بدل ہو، اور وہ نعت اور صفت نہ ہو، کیونکہ مبہم مضاف کے ساتھ نعت نہیں بن سکتا۔ (آیت) ” وما اللہ یرید ظلما للعلمین “۔ یعنی وہ انہیں بغیر گناہ کے عذاب نہ دے گا۔ (آیت) ” وللہ ما فی السموت وما فی الارض “۔ مہدوی نے کہا ہے یکہ اس کی ماقبل کے ساتھ وجہ اتصال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مومنین اور کافرین کے احوال کا ذکر کیا اور یہ کہ وہ دنیا والوں پر ظلم نہیں کرے گا تو اس کے متصل بعد اپنی قدرتوں کی وسعت اور ظلم سے اپنے مستغنی ہونے کا ذکر کیا، اس لئے کہ جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اس کے قبضہ میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ ابتدائے کلام ہے، اس نے اپنے بندوں کے لئے بیان کیا ہے کہ زمین و آسمان میں سب کا سب اسی کا ہے یہاں تک کہ وہ اسی سے سوال کریں اور اسی کی عبادت کریں اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔
Top