Ashraf-ul-Hawashi - Az-Zumar : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
(اے پیمبر) اللہ نے تمجھ کو معاف کردیا تو نے ان لوگوں کو (گھر میں رہ جانے کی) اجازت کیوں دی (اس وقت تک ٹھہرنا چاہیے تھا) جب تک سچے لوگ تجھ پر کھل جاتے اور جھوٹوں کو (بھی) تو جان لیتا4
4 ہو ایہ کہ جب نبی ﷺ تبوک کی طرف روانہ ہونے لگے تو بعض منافیقن نے بناوٹی حیلے بہانے پیش کر کے آپ ﷺ سے مدینہ ہی میں رہنے کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے انہیں سچا سمجھتے ہوئے مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی، اس اجازت دینے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا لیکن نہایت لطف و کرم کے اند از میں یعنی پہلے معافی کی اطلاع دی اور پھر قصور بیان فرمایا۔ اس میں پیچھے بیٹھنے رہنے والوں کی مذمت بھی ہے۔ ( قر طبی۔ ابن کثیر) یہاں تو اجازت پر عتاب فرمایا ہے مگر سورة نو رکی آیت فاذن لمن شئت ( کہ آپ ﷺ جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں) میں اجازت کی رخصت دے دی ہے۔ ( کبیر) بعض نے لکھا ہے کہ عفا اللہ عنک تعظیما برائے دعا استعمال ہوتا ہے اس سے قبل گناہ کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ ( کبیر)
Top