Dure-Mansoor - Hud : 70
فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب رَآٰ اَيْدِيَهُمْ : اس نے دیکھے ان کے ہاتھ لَا تَصِلُ : نہیں پہنچتے اِلَيْهِ : اس کی طرف نَكِرَهُمْ : وہ ان سے ڈرا وَاَوْجَسَ : اور محسوس کیا مِنْهُمْ : ان سے خِيْفَةً : خوف قَالُوْا : وہ بولے لَا تَخَفْ : تم ڈرو مت اِنَّآ اُرْسِلْنَآ : بیشک ہم بھیجے گئے ہیں اِلٰي : طرف قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
سو جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس کی طرف نہیں پہنچ رہے ہیں تو ان کی طرف سے خوفزدہ ہوگئے انہوں نے کہا آپ ڈریں نہیں بیشک ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں
1:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں کعب ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) سدوم پر برتری کا اظہار فرما رہے تھے اور فرماتے تھے تیرے لئے ہلاکت ہو اے سدوم اس دن تیرے کیا حال ہوگا پھر فرمایا (آیت) ” ولقد جآءت رسلنا ابرھیم بالبشری قالوا سلما قال سلم فما لبث ان جآء بعجل حنیذ (69) “ ان کے لئے ایک بھنا ہوا بچھڑا لے کر آئے کیونکہ انہوں نے ان کو مہمان خیال کیا (آیت) ” فلما را ایدیہم لا تصل الیہ نکرھم واوجس منہم خیفۃ قالوا لا تخف انا ارسلنا الی قوم لوط (70) وامراتہ قآ ئمۃ فضحکت فبشرنھا باسحق، ومن ورآء اسحاق یعقوب (71) “ یعنی پوتے کی بشارت دی۔ (آیت) ” قالت یویلتیء الدوانا عجوز وھذا بعلی شیخا ان ھذا لشیء عجیب (72) جبرائیل (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا (آیت) ” قالوا اتعجبین من امر اللہ رحمت اللہ وبرکتہ علیکم اھل البیت۔ انہ حمید مجید (73) ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم لوط کے معاملے میں ان سے بات کی کیونکہ ان میں ابراہیم (علیہ السلام) شامل تھے فرشتوں نے کہا کہ (آیت) ” یابرھیم اعرض عن ھذا “ (س لے کر) (آیت) ” ولما جآءت رسلنا لوط سیٓء بہم “ تک یعنی لوط (علیہ السلام) غمگین ہوئے اور (مہمانوں) کی وجہ سے جب دیکھا ان کے حسن و جمال کو (آیت) ” وضاق بہم ذرعا وقال ھذا یوم عصیب “ فرمایا بری مصیبت کا دن ہے میری قوم کے لئے ان (مہمانوں) کو لے گئے اپنے گھر کی طرف اس کی عورت اپنی قوم کے پاس گئی (آیت) ” وجآءہ قومہ یھرعون الیہ ومن قبل کانوا یعملون السیات قال یقوم ھولآء بناتی ھن اطھرلکم “ ‘ یعنی میری قوم کی بیٹیوں سے شادی کرلو (آیت) ” الیس منکم رجل رشید (78) قالوا لقد علمت مالنا فی بنتک من حق وانک لتعلم مانرید (79) ۔ مہمانوں کو اپنے گھر میں بٹھایا اور خود گھر کے دروازے پر بیٹھ گئے۔ (آیت) ” قال لو ان لی بکم قوۃ او اوی الی رکن شدید “۔ فرمایا یعنی میرے پاس ایسی جماعت ہوتی جو تم کو روک سکتی راوی نے کہا اور مجھ کو یہ بات پہنچی کہ لوط (علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول ایسا نہیں بھیجا گیا مگر وہ جو اپنی قوم میں معزز اور غالب تھا۔ جب ان بھیجے ہوئے (فرشتوں نے) دیکھا ان (اپنی قوم) کے غم میں جو ان کو پہنچا تو انہوں نے کہا (آیت) ” قالوا یلوط انا رسل ربک “ ہم فرشتے ہیں۔ (آیت) ” لن یصلوا الیک فاسر باھلک بقطع من الیل ولا یلتفت منکم احد الا امراتک “ سے لے کر (آیت) ” الیس الصبح بقریب “ (81) ان پر جبرائیل (علیہ السلام) نکلے ان کے چہروں کو اپنے پروں سے ضرب لگائی تو ان کی آنکھیں ختم کردیں گے اور ” الطمس “ سے مراد ہے آنکھوں کا چلا جانا پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کی زمین کے اوپر والے حصے کو (اتنا اوپر) اٹھایا یہاں تک کہ آسمان کی دنیا کے رہنے والے (فرشتوں) نے ان کے کتوں کے بھونکنے اور ان کی مرغوں کی آوازوں کو سن لیا۔ پھر ان پر ان کو الٹ دیا گیا (اور فرمایا) (آیت) ” وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل “ یعنی ان کے دیہاتوں پر اور ان کے چرواہوں پر اور ان کے مسافروں پر آگ میں پکے ہوئے پتھر برسائے اور کوئی ان میں سے باقی نہیں رہا۔ فرشتے کھاتے پیتے نہیں : 2:۔ اسحاق بن بشر، عساکر رحمہما اللہ نے جویریہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ بچھڑے کی طرف نہیں پہنچ رہے تو آپ نے ان کو اجنبی خیال کیا اور ان سے ڈرے اور ابراہیم (علیہ السلام) کا خوف اس وجہ سے تھا کہ اس زمانے میں جب ان میں سے کوئی (کسی کو) تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرتا تھا تو اس کے پاس کچھ نہ کھاتا تھا اور یہ کہتا کہ جب میں نے اس کھانے کے ساتھ اکرام کیا ہے تو مجھ پر حرام ہے اس کو تکلیف دیتا ابراہیم (علیہ السلام) ڈرے کہ انہوں نے کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ کیا (اس وجہ سے نہیں کھاتے) تو ان کے جوڑ (خوف کی وجہ سے) حرکت کرنے لگے اور ان کی بیوی سارہ کھڑی ہوئی ان کی خدمت کررہی تھی اور جب وہ مہمانوں کی خدمت کا ارادہ فرماتے تو (اپنی بیوی) سارہ کو ان کی خدمت کے لئے کھڑا کرتے سارہ ہنسنے لگی اور ہنس کر کہنے لگی اے ابراہیم ! کیوں ڈرتے ہو وہ تین آدمی ہیں اور تمہارے ساتھ تمہارے گھروالے اور تمہارے غلام بھی ہیں جبرائیل (علیہ السلام) نے حضرت سارہ سے فرمایا اے ہنسنے والی بیشک عنقریب تو ایک بچے کو جنے گی۔ جس کو اسحاق کہا جائے گا اور اس کے پیچھے ایک اور لڑکا ہوگا جس کو یعقوب کہا جائے گا (پھر فرمایا) (آیت) ” فاقبلت امراتہ فی صرۃ فصکت وجھھا “ (الذریات آیت 29) وہ اس (بات پر) متوجہ اور حیران ہوکرکہنے لگی اے کاش اے ہلاک اور اس نے اپنے ہاتھ کو اپنے چہرے پر شرم کے مارے رکھا اور اسی کو فرمایا (آیت) ” فصکت وجھھا قالت یویلتیء الدوانا عجوز وھذا بعلی شیخا “ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے اس قول کے ساتھ خوشخبری دی گئی (اور فرمایا) (آیت) ” فلما ذھب عن ابراہیم الروع وجآء تہ البشری “ یعنی خوشخبری آئی اسحاق کی (آیت) ” یجادلنا فی قوم لوط “ ان کا جھگڑا یہ تھا کہ انہوں نے کہا اے جبرائیل (علیہ السلام) تم کہاں کا ارادہ رکھتے ہو اور کن کی طرف بھیجے گئے ہو۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا قوم لوط کی طرف اور ہمیں ان کو عذاب دینے کا حکم دیا گیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” ان فیھا لوطا، قالوا نحن اعلم بمن فیھا لننجینہ واھلہ الا امراتہ “ (العنکبوت آیت 32) ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اگر ان میں سو مومن ہوں گے تم ان کو عذاب دو گے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں پھر فرمایا اگر اس میں نوے مومن ہوں گے تو ان کو عذاب دوگے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں پھر فرمایا اگر اس میں اسی مومن ہوں گے تو ان کو عذاب دو گے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں یہاں تک کہ گنتی میں ایک مومن تک پہنچے (کہ اگر ایک مومن ہوگا) تو انکو عذاب دوگے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں جب انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے یہ ذکر نہیں کیا کہ اس میں ایک مومن ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” ان فیھا لوطا، قالوا نحن اعلم بمن فیھا لننجینہ واھلہ الا امراتہ “ (العنکبوت آیت 32) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت : 3:۔ ابن جریر وابن منذر رحمہما اللہ نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو جب ان کی قوم نے نکال دیا (وطن سے) ان کو آگ میں ڈالنے کے بعد تو وہ اپنی بیوی سارہ کے ساتھ نکلے اور آپ کے ساتھ ان کے بھائی لوط بھی تھے اور وہ دونوں آپ کے بھائی بیٹے تھے وہ شام کی زمین کی طرف روانہ ہوئے پھر وہ مصر پہنچے اور (ان کی بیوی سارہ لوگوں میں زیادہ خوبصورت تھی جب مصر میں داخل ہوئے تو لوگ ان کے حسن و جمال کی باتیں کرنے لگے اور وہ لوگ (اس کے حسن پر) بہت متعجب ہوئے یہاں تک کہ یہ بات بادشاہ کو پہنچ گئی اس نے آپ کے خاوند (یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کہ اس عورت سے اس کا کیا رشتہ ہے ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بات کے ڈر سے کہ اگر وہ اس سے کہیں کہ میں اس کا خاوند ہوں تو (ڈر ہے) وہ ان کو قتل کردے گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے (جواب دیتے ہوئے) فرمایا کہ میں اس (عورت) کا بھائی ہوں تو اس نے کہا کہ اس کی شادی کردو وہ اس حال پر تھا۔ یہاں تک کہ رات کے وقت سو گیا اسے ایک خواب آیا۔ انہوں نے اس کا گلا گھوٹنا اور اس کو خوف دلایا پس وہ خود اور اس کے اہل خانہ بہت خوف زدہ ہوگئے اور ڈر گئے یہاں تک کہ اسے یہ معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ سارہ کی جانب سے آیا ہے۔ انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بلایا اور کہا کس بات نے آپ کو آمادہ کیا کہ آپ مجھے دھوکہ دیں تو نے یہ کہا کہ یہ عورت تیری بہن ہے ؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس بات سے ڈرا کہ اگر میں نے اس بات کا ذکر کردیا کہ یہ میری بیوی ہے تو تجھ سے وہ تکلیف مجھ کو پہنچ جاتی جس کو میں ناپسند کروں گا۔ (بادشاہ نے) سارہ کے لئے ھاجرہ اسماعیل کی والدہ کو ہبہ کیا ان کو سوار کیا اور ان کو سازوسامان مہیا کیا یہاں تک کہ ایلیا پہاڑ پر ان لوگوں کی سکونت کو مزید پختہ کردیا یہ لوگ یہاں رہے یہاں تک کہ ان کے مال اور ان کی مویشی کثرت سے ہوگئے ابراہیم (علیہ السلام) کے چرواہوں اور لوط کے چرواہوں کے درمیان باہم حق جوار بھی تھا اور لڑائی جھگڑا بھی تو لوط نے ابراہیم (علیہ السلام) سے فرمایا کہ ان چرواہوں کے درمیان فساد برپا ہوگیا۔ اور ان کے لئے چراگاہیں تنگ ہوگئیں۔ اور ہم ڈرتے ہیں کہ یہ زمین ہم کو برداشت نہیں کرے گی۔ اگر آپ پسند کریں کہ میں آپ کے لئے تخفیف کردوں تو میں کردیتا ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میں بھی جانتا ہوں اگر تو چاہے اگر آپ پسند کریں تو یہاں سے منتقل ہوجائیں اور اگر چاہیں تو میں یہاں سے منتقل ہوجاوں۔ لوط (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں بلکہ میں زیادہ حقدار ہوں کہ میں آپ کے لئے تخفیف اور آسانی پیدا کردوں۔ تو (یہ کہہ کر) وہ اپنے مال اور اہل و عیال کیساتھ اردن کی سرزمین کی طرف چلے گئے وہ وہاں تھے یہاں تک کہ آپ پر حملہ کردیا فلسطین والوں نے اور ان کے اہل و عیال اور ان کے مالوں کو قید کردیا۔ یہ بات ابراہیم (علیہ السلام) کو پہنچی تو انہوں نے ان پر حملہ کردیا جو اپنے اہل و عیال اور اپنے غلاموں سے مل کر اور ان کی تعداد زیادہ تھی تین سو پر جو ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ تھے اور فلسطین والوں کی قید سے انہوں نے رہائی دلائی لوط (علیہ السلام) کے اہل و عیال کو یہاں تک کہ ان کو لوٹادیا ان کے ٹھکانے کی طرف پھر ابراہیم (علیہ السلام) اپنے شہر کی طرف چلے گئے اور سلام والے وہ لوگ تھے جن میں لوط (علیہ السلام) تشریف فرما تھے جنہوں نے عورتوں سے بےرغبتی کی مردوں کے بدلے میں (یعنی عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت کرتے تھے) جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس حال میں دیکھا تو فرشتوں کو بھیجا تاکہ ان کو عذاب دیں۔ وہ فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے جب انہوں نے ان کو دیکھا تو ان کی ہیئت اور جلال نے آپ کو مضطرب کردیا ان فرشتوں نے ان کو سلام کیا اور ان کے پاس بیٹھ گئے ابراہیم (علیہ السلام) کھڑے ہوئے کہ ان کی مہمان نوازی کریں فرشتوں نے کہا اپنی جگہ پر بیٹھے رہئیے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا بلکہ تم مجھے اجازت دو میں تمہاری ضرورت کی چیز (کھانا) لے کر آتا ہوں کیونکہ یہ تمہارا حق ہے۔ اور ہمارے پاس تم سے بڑھ کر عزت واکرام کا حق دار کوئی نہیں آیا۔ (چنانچہ آپ نے ایک موٹے بچھڑاذبح کرنے کا حکم دیا تو اس کے ان کے لئے (آگ ہو) بھونا گیا۔ اور آپ نے یہ کھانا ان کے قریب رکھا۔ (آیت) ” فلما را ایدیہم لا تصل الیہ نکرھم واوجس منہم خیفۃ “ اور ( ان کی بیوی) سارہ دروازے کے پیچھے سن رہی تھیں (فرشتوں نے کہا) (آیت) ” قالوا لا تخف انا ارسلنا الی قوم لوط “ تو آپ نے خوشخبری اپنی بیوی سارہ کو سنائی (یہ سن کر) وہ ہنس پڑی اور تعجب کرنے لگیں کہ مجھ سے لڑکا کیسے (پیدا) ہوگا اور میں بڑھیا ہوں اور آپ بھی بوڑھے ہیں فرشتوں نے کہا (آیت) ” قالوا اتعجبین من امر اللہ “ (کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہو) کیونکہ وہ قادر ہے اس کام پر جو چاہے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو بیٹا عطا فرمائے گا تم کو اس کی بشارت ہو پھر وہ فرشتے کھڑے ہوئے تو ابراہیم (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اور ان کے ساتھ پیدل چلے آپ نے ان سے پوچھا مجھ کو بتاؤ تم کیوں بھیجے گئے۔ اور تم نے کہاں جانا ہے ؟ فرشتوں نے کہا ہم سدوم والوں کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ اس (بستی) کو ہلاک کردیں۔ اس لئے کہ وہ بڑی قوم ہے۔ انہوں نے عورتوں سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ مردوں کے سبب ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اس میں نیک لوگ بھی ہیں ان کو کس طرح عذاب پہنچے گا۔ جس میں برے عمل کرنے والے قتل ہوں۔ فرشتوں نے کہا اس میں کتنے (نیک لوگ) ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تم بتاؤ اگر اس میں پچاس نیک آدمی ہوں (تو کیا کروگے) فرشتوں نے کہا اس وقت تو ہم ان کو عذاب نہ دیں گے۔ پھر فرمایا اگر ان میں چالیس (نیک) آدمی ہوں فرشتوں نے کہا تب تو وہ ان کو عذاب نہ دیں گے اس طرح برابر کم کرتے کرتے دس تک پہنچے۔ پھر فرمایا لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کا کیا ہوگا ؟ فرشتوں نے کہا بستی میں اگر کوئی نیک گھر ہوا یعنی لوط (علیہ السلام) اور اس کے گھر والے فرشتوں نے کہا (لیکن) اس کی بیوی کی خواہشات اور پسند قوم کے ساتھ ہے پس کس طرح بستی والوں سے عذاب کو ہٹایا جاسکتا ہے جس میں صالحین کے اہل بیت بھی پورے نہیں۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) ان سے ناامید ہوگئے تو وہاں سے واپس لوٹ آئے اور وہ فرشتے سدوم والوں کی طرف چلے گئے اور لوط (علیہ السلام) کے پاس آگئے۔ جب ان کی بیوی نے ان کو دیکھا تو ان کی شکل و صورت اور ان کی خوبصورتی نے اس کو بہت متعجب کیا تو اس نے بستی والوں کو کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس ایسے لوگ آئے ہیں کہ جن سے زیادہ حسین جمیل کبھی کسی کو نہیں دیکھا گیا۔ جونہی اس بارے میں انہوں نے ایک دوسرے سے سنا اور لوط (علیہ السلام) کے گھر کو ہر طرف سے گھیر لیا اور ان پر دیواروں کے اوپر سے کودنے لگے لوط (علیہ السلام) ان سے (یعنی اپنی قوم سے) چلے اور کہا اے میری قوم ! میرے گھر میں مجھے رسوا نہ کرو۔ اور میں تم سے اپنی بیٹیوں کی شادی کردیتا ہوں۔ وہ تمہارے لئے حلال اور پاکیزہ ہیں۔ انہوں نے کہا اگر ہم تیری بیٹیوں کو چاہتے تو ہم تیرے مکان کو جانتے ہیں۔ مگر ہمیں ان لوگوں کی ضرورت ہے جو تمہارے پاس آئے۔ (اس لئے) آپ ہمارے اور ان کے درمیان راستہ چھوڑ دیجئے اور ان کو ہمارے سپرد کردیں آپ کے لئے معاملہ انتہائی پریشان کن ہوگیا تو آپ نے فرمایا (آیت) ” قال لوان لی بکم قوۃ اواوی الی رکن شدید (80) “ ان کے بھیجے ہوئے (فرشتوں) نے جب الفاظ سنے (کہ کہ لوگ بہت گھبرائے رہے ہیں) تو انہوں نے کہا کہ بلاشبہ آپ کا سہارا مضبوط اور پختہ ہے۔ اور ہم ان پر ایسا عذاب لے آنے والے ہیں جو ہٹایا نہیں جائے گا ان فرشتوں میں ایک نے ان کی آنکھوں پر اپنا پر مارا۔ تو ان کی آنکھیں مٹ گئیں۔ (یعنی ختم ہوگئیں) تو (قوم والے) کہنے لگے ہم پر جادو ہوگیا ہے فرشتوں نے کہا تم ہمارے ساتھ چلو یہاں تک کہ آپ ان کی طرف آئیں (جب) رات نے ان کو ڈھانک لیا تو ان کا معاملہ اس طرح ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ قصہ بیان فرمایا ہے میکائیل (علیہ السلام) نے اپنا پیر زمین کی نچلی تہہ میں داخل کیا اور وہ عذاب دینے والے ہیں یہاں پھر ان بستی والوں کو اوپر اٹھایا اور نیچے پلٹ دیا اور آسمان سے ان پر پتھر برسے لگا تار اور جو بستی میں نہیں تھے تو جہاں وہ تھے ان کا پیچھے انہیں جگہوں پر کیا گیا۔ (اس طرح) اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا اور لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے اہل و عیال کو بچا لیا سوائے اس کی بیوی کے (کہ وہ بھی ہلاک ہوگئی کیونکہ کافرہ تھی ) 4:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے یزید بن ابی یزید بصری (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” فلما را ایدیہم لا تصل الیہ “ کے بارے میں فرمایا کہ ان کے ہاتھوں کو نہ دیکھا (کھانے کی طرف) تو آپ نے ان کو اجنبی خیال کیا۔ 5:۔ عبدالرزاق وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” نکرھم “ الآیہ یعنی جب ان کے پاس مہمان آتا اور اس نے کھانے میں سے کچھ نہ کھاتا تو وہ یہ گمان کرتے کہ یہ خیر کے ساتھ نہیں آیا بیشک یہ اپنے دل میں کوئی شر اور برائی رکھتا ہے۔ پھر جب انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی۔ جب بشارت دی جو وہ لے کر آئے تھے تو (یہ سن کر) ان کی بیوی ہنس پڑی۔ 6:۔ ابن منذر (رح) نے عمروبن دینار (رح) سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں کو مہمان نوازی کرتے ہوئے ان کے سامنے بچھڑا رکھا تو فرشتوں نے کہا ہم اس کو نہیں کھائیں گے مگر قیمت کے عوض (یعنی قیمت دینے کے بعد کھائیں گے) ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کھالو اور اس کی قیمت ادا کرو۔ انہوں نے پوچھا اس کی قیمت کیا ہے ؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا جب تم کھاؤ تو اللہ کا نام لو اور اللہ کی حمد بیان کرو جب تم (کھانے سے) فارغ ہوجاؤ تو (اس پر) بعض فرشتوں نے بعض کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ وہ آدمی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خلیل بنایا ہے۔ قوم لوط (علیہ السلام) کی ہلاکت : 7:۔ ابن جریر (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیجا کہ لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کردیں تو وہ نوجوان مردوں کی صورت میں چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آکر ٹھہرے اور ان کے مہمان بن گئے۔ جب آپ نے ان کی طرف دیکھا تو جلدی سے گھروالوں کی طرف گئے اور موٹا بچھڑا ذبح کیا پھر اس کو سرخ گرم پتھر میں بھونا اور یہی حنیذ ہے پھر ان کے پاس لے آئے اور (خود بھی) انکے ساتھ بیٹھ گئے (ان کی بیوی) ساتھ کھڑی رہی ان کی خدمت کے لئے اس لئے یہ فرمایا (آیت) ” وامراتہ قآئمۃ “ اور عبداللہ بن مسعود ؓ کی قرأت میں ہے کہ آپ کی بیوی کھڑی تھی اور ابراہیم (علیہ السلام) بیٹھے ہوئے تھے (آیت) ” فلما قربہ الیہم قال الا تاکلون (27) “ (جب ان کے قریب کیا تو انہوں نے نہ کھایا) فرشتوں نے کہا اے ابراہیم ! ہم کھانا نہیں کھائیں گے مگر قیمت کے ساتھ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا بلاشبہ اس کے لئے بھی قیمت ہے فرشتوں نے پوچھا اس کی کیا قیمت ہے ؟ فرمایا کہ تم اللہ کا نام ذکر کرو اس کے اول میں اور تم اس کی حمد بیان کرو اس کے آخر میں۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے مکائیل (علیہ السلام) کی طرف دیکھا اور فرمایا اس (آدمی) کے لئے حق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنا خلیل بنائے۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس (کھانے) کی طرف نہیں پہنچ رہے اور وہ نہیں کھا رہے تو ان سے گھبرائے اور ان سے خوف محسوس کیا جب سارہ نے آپ کی طرف دیکھا کہ آپ نے ان کا اکرام کیا ہے اور وہ (خود بھی) ان کی خدمت کے لئے کھڑی ہوئی تو (یہ دیکھ کر) ہنسنے لگی اور کہا تمہارے ان مہمانوں کا عجیب معاملہ ہے کہ ہم ان کی بذات خود خدمت کے لئے کھڑی ہوئی تو (یہ دیکھ کر) ہنسنے لگی اور کہا تمہارے ان مہمانوں کا عجیب معاملہ ہے کہ ہم ان کی بذات خود خدمت کررہے ہیں ان کا اکرام کرتے ہوئے اور وہ ہمارا کھانا بھی نہیں کھاتے جبرائیل (علیہ السلام) نے اس عورت سے فرمایا خوش ہوجاؤ ایک لڑکے کی وجہ سے (جو تجھ سے پیدا ہوگا) اور اس کا نام اسحاق ہوگا۔ اور اسحاق کے پیچھے یعقوب (پیدا) ہوں گے۔ تو اس نے تعجب کرتے ہوئے اپنے چہرے پر ہاتھ مارا اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وامراتہ قآ ئمۃ فضحکت فبشرنھا باسحق، ومن ورآء اسحاق یعقوب (71) (آیت) ” قالت یویلتیء الدوانا عجوز وھذا بعلی شیخا ان ھذا لشیء عجیب (72) (آیت) ” قالوا اتعجبین من امر اللہ رحمت اللہ وبرکتہ علیکم اھل البیت۔ انہ حمید مجید (73) “ سارہ نے پوچھا اس کی نشانی کیا ہوگی تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک خشک لکڑی لی۔ اس کو اپنی انگلیوں کے درمیان ٹیڑھا کیا تو اس کی سرسبزی لوٹ آئی ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تب وہ اللہ کے راستے میں ذبح کیا جائے گا۔ 8:۔ ابن منذر (رح) نے مغیرہ ؓ سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ مصحف (یعنی قرآن مجید) میں یوں ہے (آیت) ” وامراتہ قآئمۃ وھو جالس “ (کہ ان کی بیوی کھڑی تھی اور وہ خود بیٹھے تھے) ۔ 9:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وامراتہ قآئمۃ “ کہ (ان کی بیوی کھڑی ہوئی تھی) ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کی خدمت کے لئے۔ 10:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہما اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا تو فرشتوں نے اس وقت آپ کو اس عذاب سے متعلق بتایا تو اس پر ان کی بیوی کو تعجب ہوا کہ قوم لوط میں غفلت ہے کہ ان پر عذاب آنے والا ہے۔ 11:۔ عبد بن حمید وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فضحکت “ یعنی وہ حائضہ ہوگئیں اس حال میں کہ ان کی عمر اٹھانوے سال تھی۔ 12:۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فضحکت “ یعنی وہ حائضہ ہوگئی اور ان کی عمر نوے سے کچھ اوپر تھی اور ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو سال تھی۔ 13:۔ ابوالشیخ (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فضحکت “ یعنی وہ حائضہ ہوگئی شاعر نے کہا : انی لاتی العرس عند طھورھا واھجرھا یوما اذاھی ضاحک : ترجمہ : میں دلہن کے پاس آتا ہوں اس کی پاکی کے وقت اور میں اس دن اس کو چھوڑ دیتا ہوں جب وہ حائضہ ہو۔ 14:۔ ابن عساکر (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ سارہ کا نام یسارہ تھا۔ جب جبرائیل (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا یاسارہ تو سارہ نے کہا کہ میرا نام یسارہ ہے تو آپ نے کس طرح میرا نام سارہ کہہ دیا ضحاک نے فرمایا کہ یسارہ کہتے ہیں بانجھ ہونے کو جو بچہ جننے کے قابل نہ ہو اور سارہ اس عورت کو کہتے ہیں جو آزاد رحم والی ہو اور بچہ جننے کے قابل ہو جبرائیل (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا تو جب یسارہ تھی تو اور حاملہ ہونے کے قابل نہ تھیں اب تو سارہ ہوگئی اور بچہ کے ساتھ حاملہ ہونے اور اسے جننے کے قابل ہوگئی سارہ نے فرمایا اے جبرائیل (علیہ السلام) تو نے آپ کے نام کو کم کردیا جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجھ سے وعدہ کیا ہے۔ کہ آپ کے نام ہیں اس حرف کو آنے والے زمانے میں آپ کی اولاد میں سے ایک بچے کا نام میں رکھے گا تیری اولاد میں سے اور وہ یہ کہ اس کا نام اللہ کے نزدیک زندہ ہے اور اس کا نام یحییٰ رکھا۔ 15:۔ ابن عبدالحکیم (رح) نے فتوح مصر میں کلبی (رح) کے واسطے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا سارہ کا حسن حوا (علیہ السلام) کے حسن کی طرح تھا۔ 16:۔ ابن عبدالحکیم نے فتوح مصر میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ سارہ بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کی بیٹی تھی اور اس کو خوبصورتی دی گئی تھی۔ 17:۔ ابن منذر وابن جریر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” فبشرنھا باسحق ومن ورآء اسحاق یعقوب “ کے بارے میں فرمایا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) آپ کے پوتے ہیں۔ 18:۔ ابن الانباری (رح) نے کتاب الوقف البتداء میں حسان بن الجزی (رح) سے روایت کیا کہ میں ابن عباس ؓ کے پاس تھا ہذیل میں سے ایک آدمی ان کے پاس آیا ابن عباس نے اس سے فرمایا کہ فلاں (آدمی) کا کیا ہوا۔ اس نے کہا کہ وہ مرگیا اور اس نے چار لڑکے چھوڑے ہیں۔ اور ان کے پیچھے تین ہیں پھر ابن عباس ؓ نے فرمایا (آیت) ” فبشرنھا باسحق، ومن ورآء اسحاق یعقوب “ میں لڑکے کا لڑکا (یعنی پوتا) مراد ہے۔ 19:۔ ابن الانباری (رح) نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ اس آیت میں (آیت) ” ومن ورآء اسحاق یعقوب “ بیٹے کا بیٹا (یعنی پوتا) مراد ہے۔ 20:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ضمرہ بن حبیب (رح) سے روایت کیا کہ سارہ کو جب بھیجے ہوئے فرشتوں نے خوشخبری دی اسحاق کی راوی کا بیان ہے اس درمیان کہ وہ چل رہی تھی اور ان سے باتیں کررہی تھی اچانک اس کو حیض آگیا اور وہ اسحاق سے حاملہ ہونے سے پہلے ہی حائضہ ہوگئی جب فرشتوں نے اس کو خوشخبری دی تو انہوں نے فرشتوں سے یہ کہا تھا تحقیق میں بوڑھی ہوگئی اور ابراہیم (علیہ السلام) بھی بوڑھے ہوچکے ہیں تو مجھ کو حمل نہ ہوگا جب کہ میں بوڑھی ہوگئی اور وہ بھی بوڑھے ہوگئے تو کیا میں بچہ جنوں گی۔ فرشتوں نے کہا اے سارہ کیا تو اس بات پر تعجب کرتی ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کتنے ایسے کام کئے جو اس سے پہلے بہت عظیم اور بڑے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کو اور اپنی برکتوں کو تم پر فرمائی ہیں اے گھرانے والو ! وہ ہر طرح تعریف کیا ہو اور بڑی جان والا ہے۔ 21:۔ ابن الانباری وابو الشیخ رحمہما اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ء الدوانا عجوز وھذا بعلی شیخا “ یعنی اس دن سارہ کی عمر ستر برس تھی اور ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر نوے سال کی تھی۔ 22:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” بعلی “ سے مراد ہے میرا خاوند یعنی ابراہیم (علیہ السلام) 23:۔ ابو الشیخ (رح) نے ضرار بن مرہ (رح) سے روایت کیا کہ مسجد والوں میں سے ایک شیخ سے روایت کرتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک سو سترہ سال بعد (بیٹے کی) خوشخبری دی گئی ) ۔ 24:۔ ابوالشیخ (رح) نے زید بن علی (رح) سے روایت کیا کہ سارہ نے کہا جب فرشتوں نے ان کو خوشخبری دی (بیٹے کی) (آیت) ” قالت یویلتیء الدوانا عجوز وھذا بعلی شیخا ان ھذا لشیء عجیب (72) فرشتوں نے سارہ کی بات کے جواب میں کہا (آیت) ” اتعجبین من امر اللہ رحمت اللہ وبرکتہ علیکم اھل البیت۔ انہ حمید مجید (73) اور یہ اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وجعلھا کلمۃ باقیۃ فی عقبہ “ (الزخرف آیت 27) یعنی محمد ﷺ اور آپ کی آل کو باقی رہنے والا بنایا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیچھے۔ 25:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم والحاکم والبیہقی نے شعب الایمان میں عطا بن ابی ریاح (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس قول (آیت) ” رحمت اللہ وبرکتہ علیکم اھل البیت۔ انہ حمید مجید (73) کے بارے میں فرمایا کہ میں ابن عباس کے پاس تھا اچانک ایک آدمی ان کے پاس آیا اور اس نے سلام کیا میں نے جواب میں کہا ” وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ “ (یہ سنکر) ابن عباس نے فرمایا اسلام دھن ختم کر دو جہاں تک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یعنی روحمۃ اللہ وبرکاتہ پھر (یہ آیت) ” رحمت اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت “ تلاوت فرمائی۔ 26:۔ بیہقی رحمۃ اللہ علیہنے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک سائل دروازہ پر کھڑا ہوا اور آپ میمونہ ؓ کے پاس تھے اس نے کہا ” السلام علیکم اھل البیت ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ وصلواتہ “ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سلام وہیں ختم کردو جہاں تک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یعنی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ 27:۔ ابو الشیخ والبیہقی رحمہما اللہ نے الشعب میں عطاء (رح) سے روایت کیا کہ میں ابن عباس کے پاس تھا ایک سائل آیا اور اس نے کہا ” السلام علیکم اھل البیت ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ وصلواتہ “ ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ کیا سلام ہے ؟ اور غصہ ہوگئے یہاں تک کہ انکی آنکھیں سرخ ہوگئیں پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے سلام کے لئے ایک حد مقرر فرما دی پھر اس کو ختم فرما دیا ہے اور اس سے زیادہ الفاظ کہنے سے روک دیا ہے تم نے یہ آیت ” رحمت اللہ وبرکتہ علیکم اھل البیت۔ انہ حمید مجید (73) نہیں پڑھی۔ 28:۔ بیہقی (رح) نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ان سے کہا ” السلام علیکم اھل البیت ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ “ ابن عمر نے اس کو ڈانٹا اور فرمایا تجھ کو کافی ہے جب تو ” وبرکاتہ “ تک پہنچے جہاں تک اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ان کا اشارہ اس آیت کی طرف تھا ( آیت) ” رحمت اللہ وبرکتہ علیکم اھل البیت “
Top